گوادر: حق دو تحریک کے دھرنے پر پولیس کی جانب سے حملے کے بعد دوسرے روز بھی چوک و چوراہوں پر مظاہرے زور و شور سے جاری ہیں۔ جبکہ پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے مسلسل مظاہرین پر شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں ، حالات کشیدہ ہیں۔
ترجمان حکومت بلوچستان نے الزام عائد کیا ہے کہ مظاہرین کی تشدد سے ایک پولیس اہلکار یاسر ہلاک ہوچکے ہیں۔ تاہم آزاد ذرائع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے ۔
دوسری جانب فورسز کی جانب سے حق دو تحریک کے دھرنے پر کریک ڈاؤن اور رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف خواتین، بچوں اور مردوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔
شہر اور مکران کوسٹل ہائی وے پر مظاہرین اور فورسز کے درمیاں وقفے وقفے سے جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جبکہ بعض مقامات پر فورسز مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ھوائی فائرنگ اور شیلنگ بھی کررہے ہیں۔
مقامی صحافی کے مطابق شہر اور زیرو پوائنٹ سے وڈیو اور تصویریں لے کر وہ تربت یا لسبیلہ آکر اپنے اداروں کو بھیج دیتے ہیں۔
حق دو تحریک نے اپنے گرفتار کارکنوں کی رہائی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
ہمارے نمائندے کے مطابق مظاہرین نے سُربندر زیرو پوائنٹ، پسنی زیرو پوائنٹ اور اورماڑہ زیرو پوائنٹ پر مرکزی شاہراہیں مکمل بند کر دی ہیں، جبکہ بازاروں میں شٹرڈاؤن ہڑتال ہے اور ماہیگیروں نے سمندری شکار بھی احتجاجاً روک دی ہے۔
عوامی حلقوں کا کہناہے کہ گوادر میں انٹرنٹ سروسز بند ہے ، پی ٹی سی ایل کی سروسز بھی معطل کر دی گئی ہے اور بجلی بھی بند ہے۔ یہ تمام تر حربے عوامی آوازوں کو دبانے کیلئے استعمال کی جا رہی ہیں جوکہ ریاستی بربریت کی انتہا ہے۔
ان کا یہ بھی کہناہے کہ مظاہروں میں شریک سیاسی کارکنوں کے گھروں پر سیکیورٹی اہلکار چھاپے مار رہے ہیں، کارکنان کے اہلخانہ کو حراساں کیا جا رہا ہے جبکہ گھر کے املاک کو بھی نقصانات پہنچانے کے شواہد سامنے آرہی ہیں۔
دریں اثناء حق دو تحریک کے ایک بیان میں کہا گیا ہیکہ 250 سے زائد کارکنان گرفتار کر لیئے گئے ہیں جبکہ 50 کے قریب کارکنان لاپتہ ہیں۔
مظاہرے میں شریک خواتین پر تشدد اور انکی بے حرمتی کے ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔
انھوں نے بیان میں کہاہے کہ حکومت بلوچستان اور وفاقی حکومت دونوں اس بربریت میں برابر کے شریک ہیں۔ وفاقی حکومت میں شامل بی این پی مینگل بھی یکسر خاموش ہے۔ حالانکہ یہ تمام تر ظلم و ذیادتی انہی کے رکن اسمبلی کے حلقے میں جاری ہے مگر اب تک ان کی جانب سے ایک مذمتی بیان تک سامنے نہیں آیا۔