گوادر : خود کو سرمچار ظاہر کرکے پانوان کے رہائشی نوربخش کلمتی سے بھتہ طلب کرنے والے نامعلوم افراد نے گاؤں پر راکٹ کے گولوں سے حملہ کیا۔ خوش قسمتی سے کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا اور راکٹ کا گولہ گھروں کے اوپر سے ہوتا ہوا کھیت میں گر گیا۔
پانوان گوادر کی تحصیل جیمڑی کے مرکزی قصبہ سے متصل گاؤں ہے۔
نوربخش کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر انھوں نے 60 لاکھ روپے ادا نہیں کیے تو ان کے گھر کو راکٹ سے اڑا دیا جائے گا۔
نوربخش پر یہ تیسرا حملہ ہے۔ مائن کے ایک حملے میں نوربخش بچ گئے تھے جبکہ دوسرے حملے میں ان کے قریبی رشتہ دار صادق کلمتی شدید زخمی ہوگئے جو کہ تاحال کراچی میں زیر علاج ہیں۔
گذشتہ رات کو فائر کیا گیا راکٹ کا گولہ گاؤں کے اوپر سے گزرتا ہوا کھیت میں گرگیا اور زمین نرم ہونے کی وجہ سے پھٹ نہ سکا ۔جمعہ کی صبح ایف سی کے بم اسکواڈ نے راکٹ کے گولے کو ناکارہ بنا دیا۔
نوربخش کلمتی کو ' گل بلوچ ' کے نام سے ایک شخص نے خود کو اشارتا بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم کا ترجمان ظاہر کرکے 60 لاکھ روپے بھتہ طلب کیا تھا جس کی عدم ادائیگی کی صورت سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی اور اس پر عمل کرتے ہوئے اب تک ان پر تین مرتبہ جان لیوا حملے کیے گئے۔ان حملوں میں روایتی اور چھوٹے ہتھیاروں کی بجائے، مائن اور گولے استعمال کیے گیے۔
ان حملوں کے الزام میں حاصل کلمتی نامی ایک شخص کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جو اب ضمانت پر رہا ہے۔مذکورہ ملزم نے برکت کلمتی سکنہ مغربی بلوچستان کے ساتھ مل کر مغربی بلوچستان سے ایک آزادی پسند تنظیم کے کارکن کو اغواء کرکے پاکستانی ایجنسیوں کی تحویل میں دیا تھا۔راز فاش ہونے پر حاصل کلمتی مغربی بلوچستان سے فرار ہوگیا جبکہ ایرانی حکومت نے برکت کلمتی سکنہ نگور ضلع دشتیاری، مغربی بلوچستان کو گرفتار کرکے مہینوں تک قید میں رکھا۔اب برکت کلمتی بھی آزاد ہے اور بلوچستان کے دو خطوں میں آزادنہ نقل و حرکت کرتا ہے۔
حاصل کلمتی پاکستانی فوج کی کٹھ پتلی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کا مقامی لیڈر ہے۔
حال ہی میں سی ٹی ڈی نے حاصل کلمتی کو حراست میں لیا تھا جس پر جیمڑی میں ’ڈاکٹر سنی ولد شیر محمد‘ نامی شخص کے قتل کے ایک مقدمہ کے علاوہ نوربخش کلمتی پر حملوں کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
ریڈیو زرمبش کے ذرائع کے مطابق حاصل کلمتی گذشتہ دنوں ضمانت پر رہا ہوکر اسلام آباد چلا گیا تھا۔حاصل کلمتی کو سی ٹی ڈی نے گرفتاری کے بعد مختصر مدت کے لیے جبری لاپتہ بھی رکھا تھا بعد میں اس پر سنگین الزامات لگا کر عدالت میں پیش گیا۔
بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف اپنی سرگرمیوں اور اپنے قبیلے میں شرپسندانہ حرکتوں کی وجہ سے حاصل کلمتی روپوشی کی زندگی گزار رہا ہے اور اسلام آباد میں نامعلوم مقام پر رہائش پذیر ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حاصل کلمتی پاکستانی فوج کا خاص ایجنٹ ہے اور کینٹ جیسے ہائی سیکورٹی علاقوں میں رہائش رکھتا ہے۔
جیمڑی میں ریڈیو زْرمبش کے نامہ نگار میران بلوچ نے اس حوالے سے مزید بتایا کہ سیکورٹی ذرائع کے مطابق راکٹ کے گولے کو لاؤنچ کرنے کے لیے چند کیلومیٹر کے فاصلے پر لاؤنچنگ بیس بنایا گیا تھا۔ دو سے تین بوریوں میں مٹی بھر کر رکھے گئے تھے۔ پورا گاؤں گولے کے نشانے پر تھا کہ لیکن گولے کے فائر کرتے وقت ایک بوری پھسل گئی اور نشانہ چوک گیا جس سے گاؤں بڑی تباہی سے بچ گیا۔
انھوں نے بتایا کہ نوربخش کے اہل خانہ کے مطابق ان پر حملہ کرنے والے افراد کا بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں سے تعلق نہیں بلکہ جرائم پیشہ افراد ان کا نام استعمال کرتے ہوئے دہشت پھیلا رہے ہیں تاکہ کاروباری لوگوں سے رقم بٹور سکیں۔
نوربخش کلمتی کے اہل خانہ اپنے اوپر ان منظم اور پے درپے حملوں کے حاصل اور برکت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں جو علاقے اور اپنے قبیلے میں جرائم پیشہ اور ناپسندیدہ سرگرمیوں کا طویل رکارڈ رکھتے ہیں۔
علاقے کے بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ ان حملوں میں پاکستانی فوج کے ایجنٹ ملوث ہیں جو پاکستانی فوج کی طرف سے مراعات بند ہونے کے بعد پیسوں کے لیے مقامی تاجروں کو دھمکی دے کر بھتہ وصولی کے ذریعے اپنے مجرمانہ نیٹورکس چلانا چاہتے ہیں۔
ان جرائم پیشہ نیٹورکس میں بلوچ آزادی پسند تنظیموں سے منحرف سرمچار بھی شامل ہیں جو پاکستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال کر سرینڈر ہونے کے بعد فوج کے لیے کام کر رہے ہیں۔
مقامی پولیس افسر حفیظ بلوچ نے بتایا کہ نوربخش کو حملے کا نشانہ بنانے والے نامعلوم افراد نے پولیس کو بھی حفاظتی چوکیاں ختم کرنے کے لیے کہا ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت سنگین نتائج کی دھمکی ہے۔
انھوں نے جائے وقوع کا معائنہ کرتے ہوئے مقامی لوگوں کو یہ بھی بتایا کہ اس واقعے میں پاکستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے منحرف سرمچاروں کے ملوث ہونے کا شبہ ہے جو اس طرح کے ہتھیار استعمال کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔
ایک پولیس ذرائع نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ راکٹ کے گولے کا استعمال عام جرائم پیشہ افراد کے بس کی بات نہیں۔ایک راکٹ کے گولے کی بلیک مارکیٹ میں قیمت لاکھوں روپے میں ہے۔اسے اس طرح کے اہداف کے لیے استعمال کرنے سے یہ شک پختہ ہوتا ہے کہ یہ گروہ بلوچ سرمچاروں سے چوری کیے گئے ہتھیار استعمال کر رہا ہے اور یہ کہ انھیں ان ہتھیاروں کے استعمال کی مہارت بھی حاصل ہے۔
’ اس طرح کی کارروائیاں ماضی میں تربت اور ضلع کیچ کے دیگر علاقوں میں بھی کیے گئے تھے اور اب ساحلی علاقوں کے لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا مقامی پولیس کے پاس اس طرح کے جرائم پیشہ افراد کا سراغ لگانے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔اس معاملے سے نمٹنے کے لیے پولیس کو انٹلی جنس اداروں کی مدد اور مکمل حمایت چاہیے۔
پولیس ذرائع نے بتایا کہ ہم بھی وہی سوچ رہے ہیں جو اس واقعے پر عوام کی سوچ ہے اور اگر یہ درست ہے کہ ان واقعات کے پیچھے کوئی ایسا گروہ ہے جسے فوج کے اندر کسی کی حمایت حاصل ہے تو پولیس اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتی