اورماڑہ اور ہنگول کے درمیان کوسٹل ہاوے پر گوادر سے کراچی جانے والی تیز رفتار مسافر کو چ کو نامعلوم مسلح افراد نے نشانہ بنایا ،جس سے بس کے ٹائر برسٹ ہوگئے، تاہم ڈرائیور نے مہارت سے کوچ کو الٹ جانے سے بچا کر چالیس زندگیاں بچا لینےمیں کامیاب ہوگئے ۔
واقع کے عینی شاہد ین کا کہنا ہے کہ دھماکہ بعد جب بس رک گئی تو نیچے اتر کر ہم نے دیکھا کہ ٹائر قدرتی حادثے کا شکار نہیں ہوئے تھے بلکہ گولیوں سے ہِٹ کئے گئے تھے ۔ جسے دیکھ کر ڈرائیور سمیت تمام سواریاں دنگ رہ گئے کیوں کہ سب یہ سمجھ رہے تھے کہ ٹائر خود بخود برسٹ ہوگئے ہیں ، مگر ایسا نہیں تھا ۔
مسافروں کا کہنا ہے کہ مسافر کوچ کو نشانہ بنا کر چالیس کے قریب قیمتی زندگیاں ضائع کرنے سے کسی کو کیا فوائد حاصل ہو سکتاہے ، اور اسکے پیچھے کونسے پس پردہ عزائم ہونگے اس پر فوری رائے قائم کر لینا قبل از وقت ہے۔
مگر یہ کہنا بجا ہوگا کہ بلوچستان کی خونی شاہراہوں پر جو آئے روز حادثات رونما ہوتے ہیں وہ سب قدرتی نہیں ہیں بلکہ یہ کسی نادیدہ قوتوں کےنشانے کا شکار ہوتے ہیں۔ اس پر ذمہ دار حلقوں کو غور و فکر کر لینا چاہیئے۔
بس میں سوار بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق چیئرمین ظریف رند کا کہنا ہے کہ بس میں سوار ہم سمیت دیگر تمام مسافر جن میں خواتین و بچے بھی شامل ہیں، سب محفوظ ہیں۔
مگر بَس کے اندر خوف کا سماں ہے۔ مکمل طور پر سنّاٹا ہے اور سب ایک دوسرے کو حیرت و سوالیہ نظروں سے گھور رہے ہیں کا یہ حرکت کس نے اور کیوں کی ۔
آپ کو علم ہے بلوچستان کے شاہراہوں پر اکثر سرکاری مقامی بنائے گئے ڈیتھ اسکوائڈز کے مقامی ایجنٹ آئے روز مسافروں کو لوٹتے رہتے ہیں ۔
جس کے خلاف تین دن قبل بھی تاجر برادری ٹرانسپورٹر ز نے مستونگ لکپاس کے مقام پر شاہراہ کو بلاک کرکے مسافروں کو تحفظ دینے کا مطالبہ کیاتھا ۔