دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہوگئی اقوام متحدہ نے اپنی ویب سائٹ پر 15 نومبر کو 8 ارب کا دن بھی قرار دے دیا




اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق منگل 15نومبر کو دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہوگئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2030 میں یہ بڑھ کر ساڑھے آٹھ ارب، سن 2050 میں 9.7 ارب اور سن 2100 میں 10.4 ارب ہوجائے گی۔


اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ  عالمی آبادی  1950 کے بعد سے اب تک کی اپنی سست ترین شرح سے آگے بڑھ رہی ہے جو 2020 میں ایک فیصد سے کم ہو گئی ہے عالمی آبادی کو 7 ارب سے بڑھ کر 8 ارب ہونے میں 12  سال لگے  جبکہ آبادی  کے 9 ارب  تک پہنچنے میں تقریباً 15  سال لگیں گے اس حساب سے  2037 تک دنیا کی آبادی 9 ارب ہو جائے گی جو کہ عالمی آبادی میں  اضافے کی شرح میں سست رفتاری  کی علامت ہے۔


رپورٹ کے مطابق سن 2022 میں دنیا کے دو سب سے گھنی آبادی والے علاقے ایشیا کے تھے۔ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا کی آبادی 2.3 ارب تھی جب کہ وسطی اور جنوبی ایشیا کی آبادی 2.1 ارب تھی چین اور بھارت، جن میں سے ہر ایک کی آبادی 1.4 ارب سے زیادہ ہے، ان دونوں ایشیائی خطے کے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک ہیں۔


اقوام متحدہ نے پیشن گوئی کی ہے کہ سن 2050 تک عالمی آبادی میں ہونے والی مجموعی اضافے کا نصف سے زیادہ صرف آٹھ ملکوں تک مرکوز رہے گا۔ ان میں پاکستان، بھارت، کانگو، مصر، ایتھوپیا، نائجیریا، فلپائن اور تنزانیہ شامل ہیں۔


اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سب سے زیادہ کے لحاظ سے بھارت چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ بھارت سن 2023 میں دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔



اقوام متحدہ فنڈ برائے آبادی کا کہنا ہے کہ دنیا بھرکی آبادی 8 ارب تک پہنچ چکی ہے لیکن چین کی آبادی آئندہ برس سے سکڑنا شروع ہوجائے گی اور بھارت دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔

جبکہ صرف پاکستان کی آبادی 1.9 فیصد کی سالانہ شرح سے بڑھ رہی ہے۔


اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں شرح پیدائش 3.6 فیصد ہے۔


چین میں 2021 تک شرحِ پیدائش 1.16 تھی جو اقتصادی تعاون کی بین الاقوامی تنظیم او ای سی ڈی کے مستحکم آبادی کے لیے مقرر کردہ معیار 2.1 بھی کم ہے۔


آبادی کے اعدادو شمار میں تبدیلی کے اثرات پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق کرونا وائرس کی وبا کے دوران پیش آنے والی مشکلات اور چینی حکومت کے ان پر قابو پانے کے لیے کیے گئے کڑے اقدامات نے لوگوں کی بچے پیدا کرنے کی خواہش کو متاثر کیا ہے۔


ماہرین کے مطابق رواں برس چین کی تاریخ میں سب سے کم بچے پیدا ہوئے ہیں۔ چین میں رواں برس پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی نیچے آچکی ہے۔ گزشتہ برس یہ تعداد ایک کروڑ چھ لاکھ رہی تھی جو کہ 2020 کے مقابلے میں ساڑھے 11 فی صد کم تھی۔

چین نے گزشتہ سال سے تین تک بچے پیدا کرنے کی اجازت دے دی ہے اور مناسب شرحِ پیدائش تک پہنچنے کے لیے اقدامات کا اعلان بھی کیا ہے۔


مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ ترقیوں میں صدر شی نے تائیوان سے متعلق اپنے عزائم کو بھی ترجیح دی ہے۔


منصوبہ سازوں کے لیے آبادی میں بوڑھے افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد نے کئی الگ نوعیت کے مسائل پیدا کیے ہیں۔


چائنیز یونیورسٹی آف ہانگ کانگ سے وابستہ پروفیسر شین جیانفا کا کہنا ہے کہ ہماری توقع ہے کہ چین میں عمر رسیدہ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ یہ چین کے لیے انتہائی سنجیدہ صورتِ حال ہے جو آج سے 20 برس کے مقابلے میں بالکل مختلف ہے۔


چین کی آبادی میں 65 بر سے زائد عمر کے افراد کی شرح اس وقت 13 فی صد سے زائد ہے لیکن اس میں اب تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ کام کرنے والی افرادی قوت میں کمی کی وجہ سے تیزی سے بڑھتے ہوئے عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال ایک چیلنج کی صورت اختیار کررہی ہے۔


پروفیسر شین کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے عمر رسیدہ افراد کی شرح بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ اس لیے حکومت کو اس کے لیے پہلے سے تیاری کرنا ہوگی۔


بوڑھے افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد سے پیدا ہونے والے مسائل کے باعث چین نے بچوں کی پیدائش کی شرح بڑھانے کے لیے شادی شدہ جوڑوں کی حوصلہ افزائی بھی شروع کی ہے۔


اس مقصد کے لیے حکومت جوڑوں کو ٹیکس میں رعایت، بچوں کی پیدائش کے بعد زیادہ چھٹیاں، میڈیکل انشورنس اور مکان کی تعمیر پر سبسڈی جیسی مراعات متعارف کراچکی ہے۔


لیکن آبادیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات کافی نہیں ہیں۔

اقوام متحدہ فنڈ برائے آبادی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ پاکستان ان 8 ممالک میں شمار ہوتا ہے جو 2050 تک دنیا کی متوقع آبادی کالگ بھگ نصف ہوں گے اسی طرح چند ممالک میں بھی ایسی صورتحال ہے جن میں ڈی آر کانگو، مصر، ایتھوپیا، بھارت، نائجیریا، فلپائن اور تنزانیہ شامل ہیں۔


یو این ایف پی اے کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سال 2011 میں 7 ارب آبادی تھی جو اب سال 2022 میں 8 ارب تک پہنچ چکی ہے، اس آبادی کا نصف حصہ ایشیا سے ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 8 ارب آبادی لمحہ فکریہ ہے، پاکستان کو آبادی کے لحاظ سے صورتحال کا جائزہ کرنے اور مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔


صرف آبادی کے ہندسے پر توجہ دینے کے بجائے ہمیں ٹھوس شواہد کے ساتھ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، اس کا حل آبادی کو کم یا زیادہ کرنے کا نہیں ہے بلکہ تعلیم اور صحت پر سرمایہ کاری کرکے بڑھتی ہوئی آبادی سے معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ لوگوں کو یکساں حقوق اور مواقع فراہم کیے جاسکتے ہیں

۔

پاکستان میں اقوام متحدہ فنڈ برائے آبادی کی نمائندہ ڈاکٹر لوئے شبانہ کا کہنا ہے کہ خدمت، وکالت اور سماجی اصول کے ساتھ خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کے ذریعے معاشی ترقی حاصل کرسکتے ہیں اور قدرتی وسائل کے ذریعے اسی طویل عرصے تک برقرار رکھا جاسکتا ہے۔


اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر عوامی بہبود کے منصبوبوں میں سر فہرست ہونی چاہیے جسے تمام طبقوں کی حمایت اور بھی حاصل ہوتاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ قوم کا ہر نوجوان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے کی تعمیر اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔


اقوام متحدہ نے اپنی ویب سائٹ پر 15 نومبر کو 8 ارب کا دن بھی قرار دیا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post