بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ترجمان کے بیان مطابق مرکزی کابینہ اجلاس زیرصدارت چئیرمین جہانگیرمنظور بلوچ شال میں منعقد ہوا۔اجلاس کاروائی مرکزی سیکریٹری جنرل عظیم بلوچ نے چلائی۔ کابینہ اجلاس کا باقائدہ آغاز شہدائے بلوچستان اور ایرانی فورسز کی جانب سے مارے جانے والے شہداء کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔
اجلاس میں چئیرمین بی ایس او خطاب،ملکی و بین القوامی سیاسی صورتحال اور بلوچستان پر اسکے اثرات، ملک بھر میں بلوچ طلباء کے تعلیمی مسائل،تنظیمی امور سمیت آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔
اجلاس میں موجودہ بین القوامی و ملکی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کابینہ اراکین نے سیرحاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی طاقتیں مفادات کی جنگ لڑرہی ہیں۔
اجلاس میں کہاگیا کہ مظلوام اقوام کی نظریں اقوام متحدہ جیسے بین القوامی داروں پر ہیں لیکن ان طاقتوں کا محور طاقت کا جنون اور سیاسی و معاشی مفادات ہیں۔انسانیت اور امن کی چیمئینز ممالک دراصل اپنی استعماریت کو دوام بخشنے کیلئے صرف حربے آزما رہے ہیں۔
لہذاً مظلوم اقوام کو یک دوسرے سے ہم آہنگی مضبوط کرکے ایک دوسرے کا سہارہ بننا ہے۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان سے امریکی انحلاء کے بعد استعماری قوتیں اب زیادہ متحرک ہوگئی ہیں۔ آج کی جنگ معاشی جنگ ہے۔چائنہ اور امریکہ جیسی استعماری یلغاروں کی نظریں مظلوم اقوام کی وسائل پر ہیں۔ اس معاشی جنگ میں دنیا کی طاقتوں کیلئے کمزور اور زیردست اقوام کا خون بہانا اہمیت نہیں رکھتی۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان انٹرنیشنل مافیاز کا کشمکش ہے۔ایرانی بلوچستان میں حالیہ واقعات سے سینکڑوں بلوچوں کی قتل عام نے اس بات پر مہرثبت کردی ہے کہ ایرانی حکومت بلوچ نسل کشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کیلئے تعلیم کے دروزے بندکرنے کے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ایک طرف بلوچستان میں تعلیمی ادارے غیر فعال ہیں جبکہ دوسری جانب مخصوص نشستوں پر سیٹ حاصل کرکے وفاق اور پنجاب میں زیرتعلیم بلوچ طلباء کی پروفائلنگ اور ان کے سیٹوں پر ڈاکہ زنی جاری ہے۔
طلباء رہنماوں نے کہاکہ بلوچستان بھر کے کالجز میں بغیر کوئی تعلیمی پالیسی کے بی ایس او پروگرام کو چلایا جارہا ہے۔ کالجز میں اساتذہ اور اسٹاف کی کمی سے بی ایس پروگرام مکمل ناکام ہے۔ تعلیمی اداروں کی عمارتیں خستہ ہال ہیں جبکہ طالبعلموں کیلئے ہاسٹلز سمیت دیگر سہولیات کےدروازے بند کردیے گئے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ رخشان اور خضدار میں یونیورسٹیز کا اعلان تو ہوا لیکن مذید اس پر پالیسی ہے اور نہ ہی اکیڈمک سیشن اسٹارٹ کی گئی ہے۔ جامعہ بلوچستان،تربت یونیورسٹی سمیت دیگر جامعات کو دانستہ طور پر مالی بحران کا شکار بنا دیا گیا ہے۔
چھ مہینے کی سمسٹر کو دو مہینوں میں مکمل کرنا تعلیمی تباہ حالی ہے۔اداروں میں انتظامی پوسٹوں پر سفارشی بنیادوں پر تعیناتیوں سے ادارے گروپ بندی کے شکار ہیں۔اکیڈمک حوالے سے ادارے بدحالی کا شکار ہیں۔ جامعات میں معیاری ریسرچ کے بجائے رٹہ سسٹم کو متعارف کروایا گیا ہے۔
کابینہ اجلاس میں اراکین نے تنظیم کی گزشتہ کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تنظیمی اراکین کی انتھک جدوجہد اور واضح سیاسی پیغام کی وجہ سے بی ایس او روز بروز بلوچ طلباء میں مقبول ہوتی جارہی ہے۔
انھوں نے کہاکہ تنظیم نے ہروقت دوسرے طلباء تنظیموں سے اتحاد اورمشترکہ جدوجہدکیلئے راہ ہموار کی۔ بلوچ طلباء کے مسائل اور قومی مفاد کی بنیاد پر تمام ترقی پسند و قوم پرست تنظیموں کے ساتھ اتحاد کیلئے تیار ہیں۔
طلباء سیاست پر جس طرح بیرونی سازشیں اثرانداز ہورہی ہیں اس سے زیادہ غیرسیاسی رویوں اور انا پرستی نے طلباء کو تقسیم کا شکار بنا دیا گیا۔ عصر حاضر کے تقاضے اس بات کے متنازی ہیں کہ بلوچ طالبعلم مذید انتشار و تقسیم کا شکار ہیں۔ انھوں نے کہا تنظیم اس وقت بلوچ طالبعلموں کیلئے واحد امید ہے۔ نیشنلزم کی واضح پیغام کے ساتھ بلوچ نوجوانوں کی سیاسی تربیت کررہے ہیں۔ تنظیمی کارکنان سیاسی ماحول کی فروغ اور قومی یکجہتی کیلئے کوشاں رہیں۔
کابینہ اجلاس نے گژشتہ سینٹرل کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق کرتے ہوئے مختلف تنظیمی فیصلے لیے۔ جبکہ تنظیمی نظم و نسق کی مذید بہتری اور تنظیم سازی پر زور دیتے ہوئے کابینہ اجلاس نے جامعہ بلوچستان میں پیش آنے والے چند ناخوشگوار واقعات کی مکمل رپورٹ کے بعد آئینی خلاف ورزی پر جامعہ بلوچستان یونٹ اور شال زون کے چند اراکین کو شوکاز نوٹسز جاری کرنے کی منظوری دے دی اور جامعہ بلوچستان یونٹ کے رکن ابرار بلوچ کو تین مہینے کیلئے معطل کرنے کی بھی منظوری دے دی۔
