بلوچ یکجہتی کمیٹی کیچ کی جانب سے سانحہ نشتر ہسپتال اور سی ٹی ڈی کی جعلی مقابلوں کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی اور مظاہرہ کیا گیا

تربت : بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے سانحہ نشتر ہسپتال ملتان اور سی ٹی ڈی کے ہاتھوں مسلسل بلوچ نوجوانوں کی جعلی مقابلوں میں مارے جانے کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ جس میں خواتین و بچوں سمیت کثیر تعداد میں عوام نے شرکت کی اور سی ٹی ڈی کے ہاتھوں بلوچ نسل کشی اور سانحہ نشتر ہسپتال میں نعشوں کی بے حرمتی اور انھیں بنا کسی شناخت کے مسئلے کو منظر عام سے غائب کرنے کی سازشوں پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا اور ان دونوں واقعات میں ملوث تمام کرداروں کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ہفتہ کی صبح احتجاج عطاء شاد ڈگری کالج تربت سے شروع ہوکر ریلی کی شکل میں مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف شاہراہوں سے گزرتا ہوا شہید فدا احمد چوک تک پہنچی،اور ایک جلسہ عام کی شکل اختیار کرلی۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ایک جانب بلوچستان میں نام نہاد امن و امان کی پرچار کی جاتی ہے ، دوسری جانب وفاق میں ایک نام نہاد جمہوری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں بلوچستان کے قوم پرست بھی شامل ہیں ،وہ پاکستان میں مقتدرہ حلقے کی سیاست میں نیوٹرل ہونے کی بات کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں ہر چیز بدل رہی ہے لیکن بلوچستان میں جاری نسل کشی میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے ۔ انھوں نے کہاکہ سی ٹی ڈی کے بننے کے بعد سے بلوچستان میں 'مارو اور پھینکو ' کی پالیسی کو باقاعدہ مین اسٹریم کر دیا گیا ہے، اور اس کو قانونی طوریقے سے انجام دیا جا رہا ہے ۔ جو اس بات کی ثبوت ہے کہ بلوچستان میں جاری نسل کشی کا تعلق کسی ایک ادارے یا فوج کی پالیسی نہیں بلکہ پاکستان کے تمام ادارے بطور ریاست اس میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مقررین نے کہاکہ سب کو اس بات کا علم ہے کہ سی ٹی ڈی جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کو قتل کر رہی ہے ، لیکن عدلیہ سے لیکر صحافی حضرات تک سب کے لبوں پر مہر لگی ہوئی ہے اور کوئی بھی ان جرائم پر بات کرنے کو تیار نہیں بلوچستان صوبائی و نام نہاد وفاقی حکومت ان قتل و غارت کوبلوچستان کے حالات سے جوڑ کر انکھیں بند کئے ہوئے ہیں، جو کسی المیے سے کم نہیں ہے۔ انھوں نے کہاکہ آج بلوچستان میں جو نسل کشی ہو رہی ہے وہ باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت جاری ہے اور اس کو گزرتے وقت کے ساتھ وسعت دیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہاکہ زیارت میں گیارہ افراد کو جب جعلی مقابلوں میں ھلاک کیاگیا ،جس کے بعد 50 دنوں تک ریڈ زون میں بیٹھ کر جبری لاپتہ افراد کی لواحقین نے احتجاج کیا ،انھیں منانے اور دھرنا ختم کرنے کیلے وفاقی وزیر داخلہ وفد کے ساتھ آئے اور یقین دہانی کرائی کہ آئندہ جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کو نہیں مارا جائے گا مگر ایک مہینے کے اندر ہی مزید لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں مارنا شروع کردیا گیا ۔ انھوں نے کہاکہ عام قتل ہو یا جعلی قتل یہ سب ثابت کر رہے ہیں کہ بلوچستان کو ایک سازش کے تحت مزید قتل و غارت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ مقررین نے سانحہ نشتر پر بھی تحفظات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ جہاں ریاست کی زمہ داری ہر ایک شہری کی حفاظت اور اس کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے وہی 500 لاشوں پر اتنی خاموشی، میڈیا کا اس کو نظرانداز کرنا، سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی خاموشی نے کئی خدشات اور سوالات جنم دیے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ پنجاب میں جب کوئی کتا مرتا ہے تو اس پر بھی کئی دنوں تک پاکستانی میڈیا میں واویلا مچتاہے، لیکن 500 نعشوں پر مکمل خاموشی ہے جو ہمارے تحفظات کو مزید تقویت دے رہی ہے کہ یہ لاپتہ افراد کی ہو سکتی ہیں اس لیے ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے ۔ آخر میں مقررین نے ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان گزشتہ دو دہائیوں سے آگ و خون کی چکی میں پس رہی ہے اب مزید اس قتل و غارت کو بند ہونا چاہیے تاکہ بلوچستان کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں انھوں نے کہا کہ ا س طرح کی جعلی مقابلوں اور بلوچوں کی نسل کشی سے بلوچ قوم کو ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس سے نفرت میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا اور حالات مزید ابتری کی جانب جائیں گے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post