بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ ہمارے مذاکرات سندھ حکومت کے ساتھ جاری تھے جس میں انہوں نے ماری پور سمیت کراچی کے دیگر علاقوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کی یقین دہانی کروائی تھی اور ہمیں یہ کہا گیا تھا کہ ہم اپنے جاری کیمپ کو ختم کریں اور اپنے گھروں میں چلے جائیں وہ ان تمام افراد کی بازیابی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔
انھوں نے کہاکہ حسبِ معمول وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے یہ باتیں صرف باتوں تک ہی محدود رہیں اور ان پر کوئی عمل در آمد نہیں کیا گیا بلکہ اس کے برعکس جن کے لسٹ ہم نے سندھ حکومت کو مہیا کئے تھے ان کو بازیاب کریں پر ایسا نہ ہوا اور گزشتہ دنوں میں مزید لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جا چکا ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ لیاری سرگوات کے علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک طالب جس کا نام گلشاد ولد دلوش ہے، جو کہ 26 ستمبر کو اپنے چند دوستوں کے ساتھ ملیر سے واپس اپنے گھر آ رہے تھے ان کو ان کے دوست سراج کے ساتھ سی۔ٹی۔ڈی نے راستے میں روک کر جبری طور پر لاپتہ کیا۔
سراج کو تو ابھی دو تین دن پہلے بازیاب کیا گیا ہے لیکن گلشاد کے حوالے سے کسی کو کوئی علم نہیں کہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہے۔
انھوں نے کہاکی گلشاد ایک طالب علم ہے اور ہم یہ بات واضع کرانا چاہتے ہیں کہ اگر گلشاد سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے ، تو اسے کورٹ میں پیش کیا جائے اور اس کے جرم کو ثابت کیا جائے، لیکن اس طرح سے راستہ روک کر جبری گمشدہ کرنا یہ خود آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے۔
اسی طرح سعود ناز اور انکے کزن کو گذشتہ شام وندر سے ان کے گھر والوں کے سامنے جبری طور پر اٹھایا گیا اور اب وہ کہاں ہیں کسی کو کوئی علم نہیں۔
انھوں نے کہاکہ سعود ناز F.Sc کا طالب علم ہے۔ اگر گلشاد، سعود ناز و ان کے ساتھ دیگر مسنگ پرسنز واقعی مجرم ہیں تو ان کو کورٹ میں لایا جائے اور ان کے جرم کو کورٹ کے سامنے ثابت کیا جائے، پھر اس کے بعد جو سزا دی جائے گی وہ ہمارے لئے قابلِ قبول و تسلیم ہے۔ لیکن اس طرح ماورائے عدالت جبری لاپتہ کرنا کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ ہم حکومت سندھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ گلشاد، سعود ناز سمیت دیگر لاپتہ افراد کو جلد از جلد بازیاب کریں اور اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو ان کو کورٹ میں پیش کریں۔
بصورت دیگر لاپتہ افراد کو بازیاب نہیں کیا گیا تو ہم اس کے خلاف ایک منظم تحریک کا آغاز کریں گے اور اس کے خلاف اپنی آئندہ لائحہ عمل تیار کرکے احتجاج اور دھرنوں کا اعلان کریں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت سندھ اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔