بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو جمعہ کی دن 4797 دن ہوگئے.
اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او کے مرکزی رہنما نزیر بلوچ، بالاچ قادر ، صمند بلوچ اور خواتین شامل تھیں۔
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسئنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہم اس وقت تک اپنے جدوجہد میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک ہم ایک دوسرے پہ بھروسہ نہ کر سکیں اور اپنے اندر اعتماد کا ماحول پیدا کر سکیں، سیاسی قیادت کو اپنے عوام پر یقین کرنا چاہیے، ہمیں بیرونی قوتوں کے بجائے اپنے زور بازو پر ایمان رکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری پر امن جدوجہد بلوچ فرزندوں کی بازیابی کیلئے آخری دم تک آخری جبری گمشدہ بلوچ کی بازیابی تک جاری رہے گا، بلوچ وطن کی دفاع اور قومی بقاء اور حقوق کی خاطر آج اس وطن کے بزرگ اپنے جوان بیٹوں کی لاشوں کو کندھا دے رہے ہیں، جوان بیٹے ظلم اور تشدد کے سائے پرورش پا رہے ہیں اور ان میں بھی مزاحمتی سوچ ساتھ پنپ رہا ہے۔
انھوں نے کہاکہ ریاستی جبر بلوچ قوم کی ایک مزاحمتی نسل تیار کر رہی ہے، بلوچ نوجوان اس قوم کے معمار اور محافظ ہیں، انکے کندھوں پر بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس جدوجہد کے ساتھ نظریاتی بنیاد پر اپنا رشتہ مضبوط کریں اور اسکو آگے لے جائیں -
انہوں نے مزید کہا کہ ریاست نے بلوچ نسل کشی میں شدت لائی ہوئی ہے، پنجاب میں سینکڑوں مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی ہو یا قابض فورس سی ٹی ڈی کی جعلی مقابلوں میں جبری لاپتہ افراد کی ماورائے عدالت قتل ہو، سر زمین بلوچستان کو خون سے نہلایا جا رہا ہے، جبکہ دوسری طرف بلوچ نسل کو بھوک سے بھی مارا جارہا ہے، اس قوم کیلئے زندہ رہنے کیلئے مزاحمت کرنے اور جدوجہد کے سوا کوئی رستہ نہیں ہے -