لواحقین نا امید ہوئے تو بلوچ قوم بھی پاکستان کے آئین اور عدلیہ سے مایوس ہوگی-زبیر بلوچ

شال: بی ایس او پجار کے چیئرمین زبیر بلوچ نے ٹویٹر کے ذریعے دیئے گئے اپنے بیان میں شال میں نام نہاد وزیر اعلی بلوچستان اور گورنر کے گھر کے سامنے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے ریڈ زون دھرنے کے پس منظر میں کہا ‏نام نہاد حکومت اور اس کے وزراء جو جبری گمشدگی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے یہ بلوچ کا اولین اور اہم ترین مسلہ ہے اگر حکومت اسے حل نہیں کرسکتی تو اس سے پتہ چلتا ہے کے نام نہاد وزیر اعلیٰ و چاپلوس وزراء جو ہر روز کھڑے ہوکر مزاکرات کی بات کرتے ہے اصل میں وہ جنگی کاروبار میں ملوث ہیں اور اس جنگ کے بنیاد پہ وہ ارب پتی بن بیٹھے ہیں۔ انھوں نے کہا سینکڑوں ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دینے، ڈکیتیوں، قتل و غارتگری اور جبری گمشدگی کے عمل کو فوری روکا جائے۔ضروری ہے کے جن کو حکومت ناراض بلوچ کہتا ہے ان ناراض لوگوں سے قبل افسردہ بہنوں ، ماؤں اور بیٹیوں سے مزاکرات کرئے ان لواحقین کو یقین دلائے کے ان کے پیاروں کو بہ خیر و عافیت واپس گھر پہنچایا جائے گا اگر ایسا ممکن نہیں تو یہ اعلان کیا جائے کے یہ ملک نا پرسان ہے یہ حکمران سونے یا پھر چاپلوسی کے لیے لائی گئی ہے ان سے کوئی مطالبہ نہ کرئے ۔ ’ ریڈ زون میں وزیر اعلیٰ و وزیر داخلہ کے گھر اور دفتر سے کچھ ہی فرلانگ پر ماں ، بہن بیٹیاں گذشتہ 48 دنوں سے اپنے بھائی ، والد اور پیاروں کے بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہے لیکن نہ بلوچ وزیر اعلیٰ اور نہ ہی بلوچ وزیر داخلہ میں اتنی سیاسی و اخلاقی جرات ہے کے وہ ان لواحقین کے سر پر ‏ہاتھ رکھے۔رواں سال تربت ھوشاپ سے سی ٹی ڈی نے چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے ایک معصوم خاتون نور جان کو بے بنیاد الزامات میں گرفتار کیا جس کے لیے ‎وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام طلباء تنظیموں نے ریڈ زون میں دھرنا دیا جس میں مذاکرات کرنے کے لیے وزیر داخلہ ‎ اور نصیب اللہ مری ہمارے پاس آئے ،جو باتیں قابل ذکر ہے وہ یہ کے وزیر داخلہ کو جب ہمارے کمیٹی نے نور جان کے گرفتاری پہ تحفظات سے آگاہ کیا تو موصوف نے مہربان بہن ‎مھرنگ بلوچ کو ٹارگٹ بنا کے کہا کے آپ کیوں لاپتہ نہیں ہوتیں اور دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کے موصوف نے196 افراد کے فراہم کردہ جبری لاپتہ افراد کے لسٹ سے 170 بندوں کی رہائی کا جھوٹا دعویٰ کیا جن میں سے انھیں ایک کا نام بھی یاد نہیں تھا۔‘ بی ایس او پجار کے چیئرمین نے کہا ’ دوسرا اور اہم  سوال کے یہ افراد کس کے حراست میں تھے جس پہ بلوچستان کے مذکورہ حکام جواب دینے کے بجائے اپنی بلوچ قوم سے وفاداری کے لاگ الاپنے لگے اگر ان 170 افراد کو اغواء کرنے والوں کا پتہ لگایا جاتا تو شاید سمی، ماہ زیب، سعیدہ ، کفایت اللہ نیچاری ، سعید احمد شاھوانی، راشد کی والدہ اور دیگر کئی لواحقین  روڈ پہ نہیں بیٹھے ہوتے۔ انھوں نے کہا ہمیں یہ پوچھنے کا پورا پورا حق حاصل ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان جو سالوں سے جبری لاپتہ ہے کس کی حراست میں ہے اور کیوں یہ ظلم ہم پہ ڈھایا گیا ہے ۔ ‏قتل کرکے پھینک دینا مسئلے کا حل نہیں ہے مسئلے کا حل مذاکرات ہے اور یہ مذاکرات ابھی شروع ہوسکتے ہیں لیکن آپ کے چوکاٹ پہ بیٹھے افراد کو آپ مایوس کرکے بھیجنا چاہتے ہو تو یہ لواحقین نہیں بلکہ پرامن سیاسی عمل اور ایک امید ہے جو ان لواحقین نے لگایا ہے اس ملک کے آئین اور عدلیہ سے سب سے مایوس ہوں گے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post