بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے والنٹیئرز 7 دن سبی میں راشن کی تقسیم کرنے کے بعد جب شال کے لئے روانہ ہوئے تو بولان کا راستہ صاف تھا۔
پوری معلومات لینے کی بعد ہمارے رضاکار شال کے لئے رونہ ہو گئے، لیکن راستے میں بارش کی وجہ سے رک رک کر جب وہ سبّی سے بولان تک پہنچے تو نانی پل بہہ چکا تھا۔
آپ کو علم ہے ڈھاڈر سے آگے ویسے بھی نیٹورک کا گمان نہیں ہے اور اب تو بارش بہانہ ہے اس لئے رابطہ کاری میں بہت سے مسائل درپیش ہیں ۔
اب صورتحال یہ ہے کہ اس بات کو تین دن ہوچکے ہیں۔ مطلب نانی پل تین دن سے ٹوٹا ہے اور مقامی انتظامیہ منظر سے غائب ہے۔
انتظامیہ اے سی اور ڈی سی سبی سے رابطہ کر نے بعد معلوم ہواکہ وہ دونوں بے بس ہیں ،جنھوں نے اپنے بے بسی کا خود اعتراف کر نے علاوہ کام کرنے کی باتیں بھی کررہے ہیں ۔
حقیقت میں کیا کررہے ہیں خدا جانے لیکن نانی پل بنا نے میں عدم دلچسپی کا شکار ہیں جو پکی بات ہے۔
ہمارے رضاکار نوجوانوں سمیت ہزاروں گاڑیاں تین دن سے روڈ پر بے بس کھڑی ہیں۔ ان کے لئے راستہ بنائیں تاکہ وہ اپنے گھر پہنچ سکیں۔ یہ کہنا آسان ہے کہ آپ لوگوں نے کس کس کو کہا تھا کہ اس راستے پر جائیں اور سفر کریں ، لیکن اب کیا کیا جائے ؟
حکومت بلوچستان مہربانی کرکے سیلاب کو زرا سا سنجیدہ لیں ۔
تاہم ہمیں حکومتی اعمال سے ایسی کوئی صورت نظر نہیں آرہی کہ حکومت سنجیدہ ہوگی ۔ اور ہم جیسے لوگوں کے لئے جو عوامی خدمت میں دن رات ایک کر رہے ہیں، راستہ آسان بنائیں گے پھر بھی امید ہے وہ مشکل پیدا کرنے بجائے آسانیاں پیدا کرنے کی کو شش ضرور کریں گے ۔
اس وقت عام مسافر فیملیز سمیت بی وائی سی (کراچی) ٹیم بہت پریشان ہے۔ جلد ہی بلوچستان حکومت راستہ بنا کر مسئلے کا حل نکالیں جو ان کا فرض منصبی ہے ۔