کیچ ,ہرنائی ( اسٹاف رپورٹر سے، مانیٹرنگ ڈیسک ،ویب ڈیسک ) ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں جمعیت اہل حدیث و اہل حدیث یوتھ فورس کی جانب سے مولانا ایاز نور تگرانی کی جبری گمشدگی کے خلاف پر پریس کلب سے شہید فدا چوک تک ایک ریلی نکالی ، ریلی کے شرکاء نے چاہ سر تربت سے ائیرپورٹ چوک اور کالج روڈ سے جامعہ مسجد تربت تک گاڑیوں کے زریعے ریلی نکالی جو فدا چوک پر آکر جلسہ کی شکل اختیار کرلی اس موقع پر مولانا ایاز نور تگرانی کی بازیابی کیلئے مظاہرین نعرے بازی کرتے رہے ۔
جلسہ سے مرکزی جمعیت اہل حدیث بلوچستان کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر مولانا علی جان بلوچ، آل پارٹیز کیچ کے ڈپٹی کنوینر کامریڈ ظریف زدگ، پی این پی کے مرکزی ہیومین رائٹس سیکرٹری خان محدجان ، بی این پی مینگل کے رہنماء حافظ عطا ، جماعت اسلامی کیچ کے قائم مقام امیر غلام اعظم ، جمعیت علما اسلام کیچ کے رہنماء عبدالقدیر ، مرکزی جمعیت اہل حدیث کیچ کے ناظم تبلیغ حافظ اسماعیل ، اسلامیہ سلفیہ چاہ سر تربت کے استاد مولانا سعید احمد ، حق دو تحریک کیچ کے آرگنائزر یعقوب و دیگر نے خطاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ مولانا ایاز نور کی جبری گمشدگی کا واقعہ قابل مذمت ہے، ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ دے اگر کسی پر کوئی شبہ ہے تو قانون و آئین موجودہ ہے طلبہ، دانشوروں اور مختلف شخصیات کو اغوا کرنے کے بعد اب علماء کرام کو بھی اٹھایا جارہا ہے، ملک میں جبری گمشدگیوں سے عوام الناس اور ہر طبقے میں تشویش پائی جاتی ہے علماء کرام معاشرے کے پرامن ترین لوگ ہیں لہٰذا انہیں جبری طور پر اٹھانا سمجھ سے بالاترہے۔
اس موقع پر مرکزی جمعیت اہل حدیث بلوچستان کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر علی جان نے کہا کہ مرکزی جمعیت اہل حدیث ایک پرامن سیاسی مذہبی جمہوری اور فلاحی جماعت ہے جو ہر قسم کے تشدد اور انتہاء پسندی کے خلاف ہے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث سمیت کسی بھی پرامن شہری اور کسی بھی کارکن سے کسی ادارے کو شکایت ہے تو ذمہ دار افراد و سیاسی جماعتوں کو بتایا جائے اس کے سرپرست کو بتایا جائے اس طرح اٹھانے سے معاشرے میں مزید انتشار پیدا ہوگا اور لوگ مشتعل ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا ایاز کو اگر جلد ازجلد رہا نہ کیا گیا تو ہم سی پیک روڈ سمیت بلوچستان بھر کے شاہراہوں کو بند کریں گے، مرکزی جمعیت اہل حدیث اس وقت سیلاب متاثرین کی مدد کرنا چاہتی تھی لیکن انہیں احتجاج پر مجبور کر کے سڑکوں پر لایا گیا ہے، بلوچستان پر جبر و تسلسل کا سلوک بندکیا جائے اور جینے کا حق دیکر جبری سلوک کا سلسلہ بند کیا جائے۔
دوسری جانب بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں چودہ اگست کو پاکستانی فورسز کی فائرنگ سے نوجوان خالق داد کے قتل اور کمسن بچوں سمیت کئی افراد کے زخمی ہونے خلاف علاقہ مکین کا احتجاج دھرنا دسویں روز بھی جاری رہا ۔
آج مظاہرین نے احتجاج کو وسعت دیتے ہوئے خانوزئی کے قریب زیارت کراس کو بند کردیا، جس کے باعث شال اور ژوب کے درمیان ٹریفک معطل ہوگئی اور سڑک کے دونوں اطراف گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔
دھرنے کے شرکاء واقعہ سےمتعلق عدالتی کمیشن بنانے اور فورسز کے انخلاء کا مطالبہ کررہے ہیں۔
علاوہ ازیں چودہ اگست کو پیش آنے والے واقعے کے خلاف 23 اگست کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا تھا۔
دوسری جانب حکومت بلوچستان کا کہنا ہے کہ دھرنے کے مطالبات کے حوالے سے وزارت داخلہ کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق مظاہرے کے دوران ایف سی کی فائرنگ سے یہ واقعہ پیش آیا ہے لیکن ایف سی نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے جس کے بعد 15 اگست کو ہرنائی کے لوگوں نے خوست میں ایف سی کے کیمپ کے سامنے دھرنا شروع کیا جو آج دسویں روز بھی جاری رہا۔
