کوئٹہ ( اسٹاف رپورٹر سے )
جبری لاپتہ افراد شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4738 دن ہوگے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں نیشل عوامی پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر نواز احمد بلوچ 'بی ایس او' کے شکور بلوچ ، کبیر بلوچ ، نے اظہار یکجہتی کی ۔
وی بی ایم پی' کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں آگ اور خون کی ھولی کب تک؟
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ریاست کے سامنے حق کی آواز اٹھانے والا ہر شخص قابل گردن زنی ہے۔
انھوں نے کہاکہ بلوچ جبری لاپتہ اسیران کی بازیابی کیلئے طویل بھوک ہڑتال پر بیھٹے اور دیگر پرامن جدوجہد کرنے والوں کو بھی پاکستان افواج اور انٹیلجنس ایجنسیوں کی شدید دباوٴ کا سامنا ہے کبھی انہیں جبری اغواء کرنے تو کبھی قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔
انھوں نے کہاکہ بلوچ جبری لاپتہ کیے حراستی قتل پر اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ترجمان ایمنسٹی انٹرنیشنل کے تشویش اور تحفظات بلوچ قومی مسئلے کی بابت اہم پیش رفت ضرور ہیں مگر سنگین انسانی مسئلے کے حل اور بلوچ قومی کاز کا احاطہ کرنے کیلئے ناکافی ہیں ۔
ماما نے کہاکہ بلوچستان کے حالات صرف رپورٹس جاری کرنے کیلئے نہیں بلکہ عالمی اداروں کے فوری مداخلت کا تقاضہ کررہی ہے بلوچ جبری لاپتہ اسیران کے حراستی قتل میں مختلف اداروں پاکستانی فوج اور انٹلیجنس ایجنسیز کو زمہ دار قرار دے کر حقیقت کی جانب اشارہ تو کیا ہے۔
مگر حکومت پاکستان سے تحقیقات کرنے اور حراستی قتل کا سلسلہ رکوانے کی گزارشات فرائض سے پہلوتہی کے برابر عمل ہے کہ پاکستان ریاست بین الاقوامی قوانین کے اصولوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو بری طرح پامال کرکے نہ صرف گزشتہ چھ دہائیوں سے بلوچ نسل کشی جاری رکھی ہوئ ہے ۔
پاکستان کی اصلیت اور تمام حقائق جاننے کے باوجود عالمی اداروں پاکستان سے بلوچ جبری اسیران کے قتل کی تحقیقات کرنی چاہئے ۔
ماماقدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان بھر سے جبری اغواء کئے جانے والے ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ بلوچ اسیران نہ تو دہشت گرد ہیں اور نہ ہی مجرم بلکہ وہ قابض اور مقبوضہ کے درمیان جاری معرکہ آرائ کے دوران گرفتار ہونے والے جنگی قیدی ہیں ۔
انھوں نے اپیل کی کہ عالمی برادری قابض پاکستان ریاست پر دباوٴ ڈالے کے وہ بلوچ جبری لاپتہ اسیران کی حراستی قتل بند کرکے بلوچ اسیران کو جنگی قیدی کا درجہ دے اور انہیں ان سے جینو اکنونشن کے مطابق سلوک کریں۔
