شال ( اسٹاف رپورٹر سے )
سیاسی رہنماﺅں ، وکلا اور دانشوروں نے کہا ہے کہ چالیس دن سے لاپتہ افراد کے لواحقین ریڈ زون گورنر ہاوس کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، لہذا تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے عدالتوں میں پیش کیا جائے یہ بات ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد ایڈوکیٹ ،
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سابق سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ ، پروفیسر منظور بلوچ
سنیئر سیاستدان سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی لشکری ، سمی دین بلوچ ، عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کے صدر و بلوچستان اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی
و دیگر نے منگل کے روز ریڈ زون کے سامنے لاپتہ افراد کے دھرنے میں ، 30 اگست جبری گمشدگیوں کے عالمی دن کے موقع پرمنعقدہ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔
سیمینار سے نیشنل ڈیمو کرٹیک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ ، پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین اور سینئر صحافی محمد حنیف بلوچ نے آن لائن خطاب کیا۔ سنیئر سیاستدان سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کو سلام پیش کرتے ہیں ۔ جنہوں نے اپنی جدوجہد کو ریڈ زون منتقل کیا ۔
انھوں نے کہاکہ وہ کئی سالوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں وہ ایک دن ضرور کامیاب ہوں گی ، جو مائیں بہنیں سالوں سے احتجاج پر ہیں ان کو ریلیف فراہم کرنا انسانی و اخلاقی تقاضہ ہے ، انہوں نے کہا کہ چالیس دن سے لاپتہ افراد کے لواحقین ریڈ زون کے سامنے بیٹھے ہیں اور وزیراعلیٰ اور گورنر ہاﺅس یہاں سے چالیس قدم کے فاصلے پر ہیں جس کا مطلب یہ عوام کے نمائندے نہیں انہیں عوام پر مسلط کیا گیا ہے اس لیے یہاں نہیں آ سکتے ۔
انہوں نے کہا کہ 1973 میں آئین بنایا گیا جس پر 2010ءمیں نظرثانی کی گئی اس آئین میں بھی بنیادی اور انسانی حقوق کی شقیں موجود ہیں مگر بلوچستان میں انسانی حقوق کے چارٹر اور نہ ہی آئین پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے کے وسائل کی لوٹ مار کے بلوچستان اسمبلی کے فیصلے کو قطعاً قبول نہیں کریں گے ، لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے عدالتوں میں پیش کیا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم سیاست کے نام پر اقتدار میں آنے والوں ، سیاست کے نام پر ٹھکیداری اور اپنی سیاست کو فروخت کرکے موجودہ حکومت کو مسلط کرنے والوں سے نہیں بلکہ حقیقی سیاسی کارکنوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس دھرنے میں آکر ماﺅں بہنوں کا ساتھ دیں۔
سمی دین بلوچ نے کہا کہ ریڈ زون میں جاری دھرنے کے دوران مختلف وفود نے آکر مذاکرات کیے تاہم وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے ، ہمارے حوصلہ بلند ہیں اپنے مطالبات منوانے تک دھرنا جاری رکھیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ کئی سالوں سے لاپتہ ہیں ہماری تکلیف محسوس کی جائے مزید خود کو ازیت میں نہیں رکھ سکتے ۔ ہم حکومت سے صرف اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں ۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ وفاقی سطح پر لاپتہ افراد سے متعلق سینیٹر اعظم نذیر تارڈ کی سربراہی میں قائم کمیٹی کا وفد بلوچستان آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملاقات کرکے ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کرے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے بلوچستان صدر و بلوچستان اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی نے کہا کہ اس وقت جو تاریخ رقم ہورہی ہے اس کا ایک ایک لمحہ تاریخ میں لکھا جائے گا۔
ایک ایک بہن ، بیٹی ، ماں ، بھائی ، والد سیاسی کارکن کا کردار تاریخ میں یار رکھا جائے گا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد ایڈوکیٹ نے کہا کہ ملک میں سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سابق سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین جس درد اور تکلیف سے گزر رہے ہیں اس کی شدت کا احساس کوئی اور محسوس نہیں کرسکتا ۔
انہوں نے لواحقین کو یقین دلایا وہ لواحقین کو ہر قسم کی قانونی معاونت فراہم کرتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو لاپتہ کرنا آئین و قانون کی پامالی ہے۔ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔
بلوچ دانشور و ادیب پروفیسر منظور بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ ان کے پیاروں کو بازیاب کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم نے مظلوم و محکوم اقوام کے لئے ہونیوالی جدوجہد میں ہمیشہ صف اول کا کردار ادا کیا ہے ۔ مگر آج ان کے لئے کوئی آواز بلند نہیں کررہا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ قوم پرست جماعتیں جس جمہوریت کا راگ الاپ رہی ہیں اس جمہوریت میں ہماری مائیں بہنیں گزشتہ چالیس روز سے ریڈ زون کے سامنے بیٹھی ہوئی ہیں ، مگر کوئی حکومتی اختیار دار ان کے درد کو پوچھنے نہیں آیا ہے ۔