بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا ریڈ زون میں دھرنے کو 35 دن مکمل، اے این پی کے رہنماوں نے شرکت کی

شال ( اسٹاف رپورٹر سے ) زیارت واقعے کے بعد گورنر ہاؤس کے سامنے جاری بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے دھرنے کو گزشتہ روز پینتیس دن مکمل ہو گئے۔
بدھ کے روز عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر ،عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کے سینئر نائب صدر عمر فاروق نے جاری احتجاجی دھرنے میں ایک وفد کے ساتھ آکر شرکت کی وفد میں آغا زبیر شاہ اور دیگر شامل تھے ۔ لواحقین سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت وقت اس وقت بارش اور سیلابی پانی سے پریشان ہے، لیکن انہوں نے ان کیلئے بھی کچھ نہیں کیا ہے بلکہ اسی طرح اسی بارش میں یہاں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے بیٹھے ہوئے ہیں اور اس حکومت کو ان کی بھی کوئی فکر نہیں ہے جس طرح ہونا چاہیے. انھوں نے کہا کہ میں نے ان سب کے باتیں سنی ہے ان میں ایسی کوئی غلط بات نہیں ہے جو آئین اور قانون کے خلاف ہو. ان سب کے مطالبات آئین اور قانون کے دائرے میں ہیں اور حکومتی اختیار میں ہے لیکن اس کے باوجود آخر وہ کونسی مجبوریاں ہیں جو ارباب اختیار کو ان سے بات کرنے کیلئے روک رہی ہے. انھوں نے کہاکہ وزیر اعلی بلوچستان، فوجی ادارے، اور آئی ایس آئی والوں کو بھی چاہیے کہ وہ آئیں ان کے ساتھ بات کری ان کے مسائل حل کریں. انہوں کہا کہ میں بحیثیت سینیٹر اس دفعہ جا کر وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ ان سب سے بات چیت کرکے ان لاپتہ افراد کے لواحقین کیلئے کوئی نہ کوئی راہ نکالنے کی بھر پو ر کوش کریں گے . انہوں نے لواحقین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پارٹی عوامی نیشنل پارٹی لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ ہر فورم پر کھڑی رہے گی اور اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرے گے. دریں اثناء وی بی ایم پی کے جنرل سیکرٹری سمی دین بلوچ نے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ٹویٹر پر گزشتہ شب ہونے والے مزاکرات اور اس میں کسی پیشرفت نہ ہونے پر لکھا ہے کہ " ‏گزشتہ رات 12 بجےکمشنر اور ڈی سی شئے حق بلوچ ہمارے احتجاجی کیمپ آئے تھے اور ہم سے کہا تھا کہ بدھ دوپہر 2 بجے ایک اعلی سطح میٹنگ منعقد کی جارہی ہے ، جہاں ہمارے دھرنے کےمطالبات کے حوالے سے فیصلے کیے جائیں گے اور ہمیں اس فیصلے کے متعلق آگاہ کیا جائے گا۔ انھوں کہاکہ بدھ کے روز ہم سارا دن دھرنے میں ان کا انتظار کرتے رہے کہ ‏متعلقہ افسران ہم سے ملاقات کرکے میٹنگ کے حوالے سے ہمیں بتائیں گے ، مگر وہ ہم ملنے نہیں آئے جس کا مطلب وہ بھہ دیگر افسران کی طرح آ کر لفاظی باتیں کرکے چلے گئے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ "جب ہم اپنے احتجاج کو وسعت دیتے ہیں تو ہم سے کہا جاتا ہے ہمارے احتجاج سے عوام کو تکلیف ہوتی ہے ، جبکہ ہم گزشتہ 13 سال سے اس تکلیف کا ‏بوجھ اٹھاکر چل رہے ہیں، ایسی تکلیف جو ہرگھڑی ہرقدم سوتے جاگتے ہمارے ساتھ رہتی ہے ۔ انھوں نے کہاہے کہ ہمارے درد اور تکلیف کا مداواکون کرے گا؟ جو زمینی خداؤں نے ہماری زندگیوں پر نازل کی ہوئی ہیں ؟ انھوں نے کہاہے کہ ہمارا دردتکلیف کرب انہیں کیوں نظر نہیں آتا؟ اب یہ حکومت کےلوگ ہی ہمیں بتائیں کہ ہم وہ کونسا راستہ اختیارکریں جس سےہمیں انصاف ملے گا۔؟

Post a Comment

Previous Post Next Post