26 اگست شہیداکبرخان بگٹی کا یوم شہادت شائع کردہ شعبہ آئی ٹی و اطلاعات , بی این ایم

شہید اکبرخان بگٹی کا شمار بلوچ قومی تحریک کے ان شخصیات میں ہوتا ہے کہ جن کے عمل سے بلوچ قوم کو اپنی سمت کا تعین کرنے میں آسانی ہوئی۔شہید اکبرخان بگٹی کا پیدائشی نام ان کے داد کے نام پر شہباز خان بگٹی رکھا گیا۔ آپ 12 جولائی 1927 کو بارکھان میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا نام سردار محراب خاں بگٹی تھا۔
آپ کا آبائی علاقہ نام نہاد برٹش بلوچستان میں شامل تھا جس کے انتظامات انگریز براہ راست چلاتے تھے اور سرداروں کی حیثیت انگریز کے ملازمین سے زیادہ نہ تھی۔12 سال کی عمر میں آپ کے والد انتقال کرگئے اور آپ کی بطور بگٹی سردار دستار بندی کی گئی لیکن کم عمری کی وجہ سے آپ کے چچازاد جمال خان بگٹی کو آپ کا سرپرست مقرر کیا گیا۔ 1946 کو جب آپ کی عمر 18 سال ہوئی تو آپ کو مکمل سرداری اختیارات حاصل ہوئے۔ 28 نومبر 1946ء کو آپ اور سردار دوا خان مری نے مشترکہ طور پر تاجِ برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ ان کے قبائلی علاقے بھی ’’کلات فیڈریشن‘‘ میں شامل کیے جائیں۔جسے مسترد کردیا گیا۔آپ کی سیاست پر نظر دوڑائیں تو کئی متنازعہ فیصلوں میں شامل ہونے کے باجود آپ نے اپنے فیصلوں میں قومی مفاد کو مقدم رکھا۔ جب پاکستان کے ظالم فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے میگا پروجیکٹس کی آڑ لے کر نوآبادکاری کے ایک بڑے منصوبے کے ذریعے بلوچستان کی ڈیموگرافی کی تبدیلی کی کوشش کی تو آپ وہ پہلے بلوچ سیاستدان تھے جنھوں نے اس کی کھل کر مخالفت کی اور اسے بلوچ قوم کی موت و زیست کا مسئلہ قرار دیا۔ آپ نے بگٹی ڈوزیر کے نام سے سرکار کو اپنے مطالبات پیش کیے اور اس میں گوادر میں بلوچ مفادات کو اولیت دی۔ گوادر میں پرویز مشرف کے زمانے میں نام نہاد میگاپروجیکٹس نے بلوچ قوم میں بے چینی میں اضافہ کیا۔گوادر میں میگاپروجیکٹس کا شوشہ چھوڑتے ہی فوجی آمر کی ہدایت کی روشنی میں پاکستانی فوج نے بلوچ قوم کی سیاسی مزاحمت کو کند کرنے کے لیے سازشی حربے استعمال کیے۔میگاپروجیکٹس کے ذریعے مکران میں پارلیمانی جماعتوں کے کیڈرز کو زمین فروش بروکرز بنا کر فوج کی سہولت کاری میں لگا دیا گیا۔شہیداکبرخان وہ پہلے رہنماء تھے جنھوں نے اس سازش کو بھانپتے ہوئے اس کے خلاف آواز بلند کی۔ شہیداکبر خان بگٹی نے ہر ممکن کوشش کی کہ پرامن طریقے سے ان کے مطالبات سنے جائیں لیکن بلوچ دشمن جنرل پرویز مشرف طاقت کے استعمال پر یقین رکھتا تھا۔اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ شہیدبالاچ مری اور شہیداکبرخان بگٹی کو راستے سے ہٹاکر بلوچ مزاحمتی سیاست کو ختم کرکے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے گا۔وہ اس غلط فہمی کا شکار تھا کہ مذکورہ شخصیات کے بغیر بلوچ تحریک دم توڑ دے گی۔ مگر اس پر شہید اکبرخان بگٹی نے وہ تاریخی فیصلہ کیا کہ جس نے بازی پلٹ دی ، آپ کے الفاظ تھے ’ اگر انھوں نے مجھے مارنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ ان کا فیصلہ ہے، لیکن میں کس طرح مارا جاؤں گا یہ فیصلہ ان کا نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا انتخاب میں نے کرنا ہے کہ مجھے کس طرح مرنا ہے۔‘ پیرانسالی، بیماری اور چلنے میں تکلیف کے باوجود آپ نے عملی مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔پہاڑوں کو مسکن بنایا اور پاکستانی فوج کے سامنے ڈٹ گئے۔26 اگست 2006 کو تراتانی کے پہاڑوں میں آپ پاکستانی فوج کے ایک بڑے دستے کےگھیرے میں آگئے۔پاکستانی فوجی حکام کے مطابق آپ ایک غار میں موجود تھے۔ آپ کو گرفتار کرنے کے لیے بڑی تعداد میں فوجی غار کے اندر داخل ہوئے اور دھماکا ہوگیا۔آپ 37 بلوچ سرمچاروں سمیت شہید ہوگئے جبکہ قابض پاکستانی فوج کے 21 اہلکار بھی مارے گئے۔ آپ کی شہادت کے بعد بلوچ قومی تحریک میں زبردست ابھار پیدا ہوا۔نوجوانوں نے یہ سمجھ لیا کہ اگر پاکستانی فوج ڈاڈا اکبر خان بگٹی جیسے بلندپایہ شخصیت کے سیاسی و جائز مطالبات کو مسترد کرکے آپ کو قتل کرسکتی ہے تو عام بلوچ کے پارلیمانی سیاست کی کامیابی کی کوئی صورت نہیں۔سانحہ 26 اگست نے بلوچ قوم کو جنگ آزادی کی طرف راغب کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ نوٹ: 26 اگست کے دن شہیداکبرخان بگٹی کے یوم شہادت کی مناسبت سے بی این ایم کے یونٹس، سیل سرکلز ، ھنکین اور چیپٹرز کی سطح پر یادگاری پروگرامات کا انعقاد کیا جائے گا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post