کوئٹہ
جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کا گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاوس کے سامنے دھرنا گیارہ دنوں سے جاری ہے۔
دھرنے میں گذشتہ رات کمشنر کوئٹہ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے بھیجے گئے وفود نے آکر مزاکرات سے دھرنے کو ختم کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے ۔
بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے مطابق وفد نے ان پر یہی زور دیا کہ جوڈیشل کمیشن کے قیام کی نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد دھرنے کو ختم ہونا چاہیے،
انہوں نے کہا کہ ہمارا دھرنا اب اس وقت ختم ہوگا جب ملک کے مقتدرہ عسکری ادارے کا سربراہ آکر ہمیں سنیں اور یقین دہانی کرائیں کہ ہمارے پیاروں کو جعلی مقابلوں میں قتل نہیں کیا جائے گا اور ہمارے لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے گا، کیوں کہ ہمارے شروع دن سے یہی تین مطالبات رہے ہیں، ہم اپنے جائز مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھیں گے اور ساتھ ساتھ احتجاج کے تمام تر زرائع بروئے کار لائیں گے۔
آپ کو یاد ہے ہفتہ کی شام لواحقین کی کال پر بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے احتجاجاً بارہ بجے سے شام تک روڈ بلاک بھی کیا گیا اور احتجاجی ریلی نکالی گئی ، جو ریڈ زون میں گورنر ہاؤس کے سامنے آکر اختتام پذیر ہو گیا۔ ریلی میں لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
جاری احتجاجی دھرنے میں بلوچستان کے دوسرے علاقوں سے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین آکر شرکت کر رہے ہیں، گذشتہ دن نوشکی سے سمیع اللہ مینگل، پنجگور سے غیاث الدین کے لواحقین بھی دھرنے میں شریک رہے اور اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
اس دوران وائس فار بلوچ مسسنگ پرسنز کے جنرل سیکرٹری سمی دین بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم بلوچستان اور خاص طور پر کوئٹہ اور گردونواح کے علاقوں میں ان تمام فیملیز کو جنکے پیارے لاپتہ ہیں ان کو اور تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کو زیادہ سے زیادہ اس دھرنے میں شرکت کریں اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اس پر امن جدوجہد کا حصہ بنیں،
انھوں نے کہا کہ بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین نے تین سادہ سے مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیں، جن میں زیارت سانحہ پہ جوڈیشل کمیشن قائم کا قیام ہے، جس پہ جو پیشرفت ہوئی ہے ہم اسکو سراہتے ہیں ، لیکن ہمارے دوسرے مطالبات کو اب تک نہیں مانا گیا ہے، جبکہ ہم تمام لاپتہ افراد کے لواحقین کو یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ جبری لاپتہ زیر حراست لوگ جعلی مقابلوں میں نشانہ نہیں بنائے جائیں گے، جو ہمارے لئے سب سے بڑا لمحہ فکریہ ہے -
ان کا کہنا تھا کہ ہر ایک خاندان کو سالوں سے جبری لاپتہ اپنے پیاروں کی زندگیوں کے بارے شدید خدشات لاحق ہیں، زیارت سانحے کے بعد یہ خدشات اور خطرات نے شدت اختیار کیا ہوا ہے اس لئے لواحقین اپنے گھر وں میں نہیں بیٹھ سکتیں ۔