کوئٹہ ( اسٹاف رپورٹرز سے، ویب ڈیسک )وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئر مین ماماقدیر بلوچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ظہیر بلوچ کی بازیابی کے حوالے سے عوام کو گمراہ اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کو متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ گذشتہ سال ظہیر بلوچ کے اہل خانہ نے ہم سے رابطہ کرکے اطلاع دی کہ انہیں دن دیہاڑے کوئٹہ ایئرپورٹ روڈ سے اغواء کیا گیا ہے ، چونکہ ہم ایک رضاکارانہ تنظیم ہیں ہمارا بنیادی کام لاپتہ افراد کے خاندانوں کی مدد کرنا ہے لہٰذا ہم نے کوشش کی اُن کی مدد کی۔
انھوں نے کہاکہ ظہیر بلوچ کے اہلخانہ نے خود سے FIR بھی درج کرائی اور ہائی کورٹ میں CP فائل کی۔ ہم نے صرف اُن کیلئے مہم چلائی جو ہم عام طور پر ہر لاپتہ افراد کے لیے کرتے ہیں۔ ہم نے اس کا کیس بھی لاپتہ شخص کے کمیشن کے حوالے کیا۔
چونکہ ظہیر کا خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوشحال ہے ہمیں مہم کے علاوہ ان کے لیے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
انھوں نے کہاکہ زیارت واقعہ کے بعد اُن کے اہل خانہ نے ایک میت کی شناخت کی اور دعویٰ کیا کہ یہ ظہیر کی ہے۔ لہذا نا میں کبھی ظہیر سے ملا تھا اور نا ہی میں اسے ذاتی طور پر جانتا تھا۔ ہم نے صرف انہیں تصاویر میں دیکھا تھا۔ اس طرح ہم اسے کسی بھی طرح سے پہچان نہیں سکتے تھے۔
خاندان نے کہا کہ یہ وہی ہے تو ہم نے اتفاق کیا۔ چنانچہ وہ میت کو لیکر گئے اور اُسے دفنا دیا۔
ماما نے کہاکہ اب اس کہانی میں نیا موڑ آیا ہے۔ ظہیر زندہ لوٹ آئے ہیں جو ہمارے لیے ایک معجزہ اور خوشخبری سے کم نہیں ہے، لیکن عوام کو گمراہ کرنے کے لیے مجھ پر یا VBMP پر الزام لگانا ناانصافی ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ ظہیر کا خاندان تھا جو پولیس، عدالت اور دیگر حکام کے پاس گیا۔ ظہیر کے بڑے بھائی نے FIR درج کرائی۔ اب اس سے پوچھا جائے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ اس سے پوچھا جائے کہ کیا ہم نے اسے ایسا کرنے پر مجبور یا قائل کیا تھا ؟
ماماقدیر نے کہا کہ چونکہ ظہیر زندہ واپس آیا ہے اس سے جوڈیشل کمیشن کے معزز جج پوچھیں کہ وہ کہاں تھے۔؟ اگر ایران میں تھے تو کس جرم میں گرفتار ہوئے؟ اگر وہ بارڈر کراس کرتے وقت گرفتارہوئے تو انہیں دس ماہ قید میں کیوں رکھا گیا۔؟
انھوں نے کہاکہ عام طور پر تو غیر قانونی مہاجرین کو گرفتار کے فوراً بعد میں ڈی پورٹ کرکے پاکستانی احکام کے حوالے کیا جاتا ہے۔ تو وہ کمیشن کو بتائیں کہ انھیں کب کہاں اور کونسے ادارے کے حوالے کیا گیا۔ ؟
۔