بلوچوں کی آزادی کی جدوجہد حق پر ہے- سربراہ بی ایل ایف

کوئٹہ( پریس ریلیز ) زیارت واقعہ کے خلاف کوئٹہ میں ہونے والے احتجاج پہ فورسز کی شیلنگ و تشدد پر ردعمل دیتے ہوئے ‎بلوچ آزادی پسند رہنماء اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر ‎اللہ نذر بلوچ نے سماجی رابطے ویب سائٹ ”ٹوئٹر“ پہ اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ‎بلوچ قوم کے لاپتہ افراد کی لاشیں اٹھانے کے بعد دنیا باور کرے کہ بلوچوں کی آزادی کی جدوجہد حق پر ہے۔ انہوں نے لکھا کہ کوئی اسمبلی کی رکن ہو یامعروف دانشور اگر اپنی آنکھیں موند لے تووہ اپنی ضمیر کے آگے قصوروار ٹھہرائے گا، ساتھ انہوں نے کہا کہ ‎ ان ماؤں بہنوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو ظلم کے آگے کمربستہ ہیں۔ خیال رہے کہ گذشتہ دنوں زیارت میں پاکستان آرمی کے جعلی مقابلے میں پہلے سے لاپتہ افراد کے قتل کے خلاف لواحقین کی جانب سے ہونے والے احتجاج پر پولیس نے دھاوا بول کر شرکاء پہ شدید لاٹھی چارج اور آنسو گیس فائر کرکے انہیں زخمی کردیا، شیلنگ اور لاٹھی چارج کے باوجود لواحقین کوئٹہ ریڈ زون میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے اور دھرنا اس وقت بھی جاری ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے زیارت میں گذشتہ دنوں دوران آپریشن نو افراد کو مارنے کا دعوی کیا تھا فورسز کے مطابق مرنے والوں کا تعلق بی ایل اے سے ہے تاہم بی ایل اے نے آئی ایس پی آر کے دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مارے جانے والے افراد کا بی ایل اے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے کوشاں تنظیم وی بی ایم پی اور لواحقین کا کہنا ہے مارے جانے والے افراد پہلے سے لاپتہ افراد ہیں ان کے نام پہلے سے لاپتہ افراد کے فہرست میں موجود ہیں۔ زیارت واقعہ میں قتل ہونے والوں میں خضدار کے رہائشی انجینیئر ظہیر بلوچ بھی شامل تھے انکے بہن کے بقول اکتوبر 2021ء میں جبری گمشدگی کے بعد سے وہ ریاستی اداروں کی حراست میں تھے۔ ظہیر کی ہمشیرہ پچھلے کئی وقتوں سے اپنے بھائی کی بازیابی کے لئے سراپا احتجاج تھی، عظمی بی بی نے کہا کہ بھائی کی بحفاظت بازیابی کے لیے اُنھوں نے ہر در پر دستک دی لیکن وہ زندہ بازیاب تو نہیں ہوئے بلکہ 10 ماہ بعد ان کی تشدد زدہ لاش ہمیں ملی۔ اُنھوں نے کہا کہ ان کے بھائی کا تعلق کسی تنظیم سے تھا اور نہ ہی وہ زیارت میں فورسز سے مقابلے میں مارے گئے۔ عظمیٰ نے کہا کہ اگر اُن کے بھائی مقابلے میں مارے گئے تھے تو ان کے ہاتھوں پر مبینہ طور پر ہتھکڑیوں اور آنکھوں پر پٹی باندھے جانے کے نشانات کیوں تھے۔ پاکستان کے معروف صحافی حامد میر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پہ لکھا ہے کہ ظہیر بلوچ کو گذشتہ سال اٹھایا گیا تو انکے بھائی نے تھانہ زر غون آباد میں گمشدگی کی ایف آئی آر کٹوائی انکی بہن نے اپنے بھائی کے لاپتہ ہونے کا شور مچایا جس کے ثبوت موجود ہیں لیکن ریاست کہتی ہے وہ دہشت گرد تھا اسکی لاش زیارت کے پہاڑوں سے ملی اس پر کرنل لئیق کے قتل کا الزام لگا دیا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post