شال ( اسٹاف رپورٹر ز سے ) بلوچ آزادی پسند رہنما اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اقوام عالم اور بلوچ قوم کے نام جاری کردہ اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ سال ہاسال انتظار کے بعد بلوچ جہد میں شدت آئی ہے۔
قومی جبر کے خلاف بلوچ نوجوان و بزرگوں کا ایک ساتھ متحد ہونا بلوچ تحریک آزادی کی کامیابی ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ جنہوں نے اپنی امیدیں پاکستان کی اسمبلیوں سے وابستہ کر رکھی ہیں ،انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بلوچوں کی بنیادی انسانی حقوق کی تحفظ یہاں ممکن نہیں ہے۔
جنہیں نوکری، اسمبلی کی ممبر شپ،وزارت یا دومہینے کیلئے وزیر اعلیٰ کا منصب دیا جاتا ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اصل اہمیت ان قوتوں کی ہے جن کا تعلق پنجاب سے ہے۔
انھوں نے کہاکہ آج پنجابی وزیر اعظم اور اس کی اپوزیشن پارٹیوں کو اپنی سپریم کورٹ پر اعتماد نہیں ہے۔تو میرا سوال ان لوگوں سے ہے کہ آپ کس حیثیت سے ان سے آس لگائے بیٹھے ہو؟
حالاں کہ اس وقت پاکستان کی جوڈیشری، پارلیمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ بلوچ قوم کیخلاف ایک صفحے پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ادنیٰ مسئلے پر عدالت سوموٹو ایکشن لیتا ہے لیکن بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں بلوچ شہیداور لاپتہ کئے گئے لیکن کہاں ہے عدالت؟ آج ان کا کردار صاف عیاں ہے۔
ڈاکٹر نے کہاکہ بلوچ قوم کو چاہیے کہ وہ ان پر بھروسہ نہ کریں۔جب بلوچ جہد آزادی کی جنگ میں شدت آئی ہے تو پوری دنیا کی نگاہیں بلوچ قوم پر لگی ہوئی ہیں۔آج بحرہ بلوچ سے لیکر ڈیرہ غازی خان تک کوئی ایسا علاقہ نہیں بچاہے جہاں بلوچ کی مزاحمت نہیں ہے۔
انہوں نے ویڈیو پیغام میں چین کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین، پاکستان کا ساتھ نہ دے۔اگر چین کو سرمایہ کاری کرنا ہے تو اسے انتظار کرنا پڑے گاکیونکہ جب بلوچستان ایک آزاد ریاست بن جائے گا توچین سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔
انھوں نے کہاکہ چین خود ایک انقلاب سے گزرا ہے۔
ہم کمیونسٹ پارٹی سے کہنا چاہتے ہیں کہ چین بلوچستان میں سی پیک کے نام پربلوچوں کو علاقہ بدر کر رہا ہے اور ان کے وسائل کو لوٹ رہا ہے۔ رخشان سے لیکرکیچ تک ڈیڑھ لاکھ افراد کوجبرا نکل مقانی پر مجبور کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین خود کو ایک عظیم قوم مانتا ہے جس طرح اس سے کوئی نہیں لڑ سکا۔ اسی طرح بلوچ بھی ایک زندہ قوم ہے اور چین اس سے نہیں لڑ سکتا۔