کیا یہ سانحہ زیارت کے واقع کو کمزور کرنے کا حربہ ہے۔ ؟ تحریر سمیر جیئند بلوچ

جبری لاپتہ انجنیئر ظہیر بلوچ کو رواں سال ان کے آفس واقع کوئٹہ کینٹ سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اٹھاکر جبری لاپتہ کردیا ( جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے) ۔ جس کے بعد انکے اہل خانہ نے باضابطہ ایف آئی آر کٹواکر ان کے بحفاظت بازیابی کیلے احتجاج شروع کردی ۔ رواں ماہ پندرہ جولائی کو زیارت فوجی آپریشن میں گیارہ جبری لاپتہ افراد کو شہید کرکے آئی ایس پی آر نے دعوی کیاکہ یہ بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے ممبر ہیں ۔ جب نعشیں ہسپتال کے مردہ خانہ میں رکھے گئے ۔تو لواحقین نے اپنے پیاروں کو شناخت کرنا شروع کردیا ،ابتداء میں گذشہ پانچ سال سے لاپتہ شمس ساتکزئی کی شناخت ہوئی جس کے بعد میڈیا میں آواز بلند ہونا شروع ہوا ، اور دوسری جانب شہداء کی شناخت بھی تیزی سے شروع ہو گئی ۔ اس دوران انجنیئر زھیر کے ورثا ء کو سول ہسپتال سے نامعلوم افراد کی فون کال آئی اور انھیں بلایا گیا کہ ظہیر بلوچ کی نعش رکھی ہوئی ہے آکر لے جائیں۔ جب ورثا ء پہنچے تو نعش دیکھنے بعد کہاکہ کہ یہ ہمارا پیارا نہیں ہے مگر فون پر بلانے والے نامعلوم افراد بار بار زور دیتے رہے کہ یہ ظہیر بلوچ کی نعش جلدی لے جائیں ۔انھیں ایمو شنل کرکے مجبور کیا گیا کہ یہی نعش تحویل میں لے لیں ، جس کا زکر زھیر کے بھائی اور کزن اس پریس کانفرنس میں بھی کر رہے ہیں۔ جیساکہ انکے بھائی اور کزن کا کہناہے کہ وہ پریشانی کے عالم میں نعش کو بلآخر وصول کرنےپر یہ جانتے ہوئے کہ انکا نہیں مجبور ہو جاتے ہیں ۔ دوسری جانب نعشوں کی شناخت جبری لاپتہ افراد کے نام سے ہونے پر پاکستانی فوج اور انکے کھٹ پتلی حکومت اتنی حواص باختگی کا شکار ہ ہوتے ہیں کہ وہ کبھی نعشوں کو لاپتہ افراد تو کبھی ریاستی اداروں فوج کو بدنام کرنے کا حربہ کرادیناشروع کردیتے ہیں ۔ جب حکومت کی متضاد بیانی کے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین اور دیگر انسان دوست تنظیموں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ۔تو حکومتی گھیراو اتنا تنگ ہوا کہ وہ متضاد بیانات دینےپر مجبور ہو گئے ۔ فوج اور کھٹ پتلی حکومت کے پاس کوئی جواز نہیں بچا کہ وہ کیسے اس سانحہ کے بعد غیر متوقع عوامی دباو سے چھٹکارا پائیں ۔ بلآخر وہ لاپتہ ظہیر بلوچ کو منظر عام پر لانے کیلے مجبور ہوگئے ۔ اور اپنے منصوبہ پر کام کرنا شروع کردیا ، جس کو انھوں نے اس دن تیار کیاتھا جب انھوں نے انکے خاندان کو دوسرے شہید کی نعش ظہیر کہہ کر حوالے کردیاتھا ۔ اور اب ان کیلے لاپتہ انجینیئر ظہیر ایک ڈھال ثابت ہوا ۔ یہ ڈھال انھیں انکے خاندان پر دباو ڈال کر تیار کروایا گیا ۔ اس کے علاوہ فورسز کی مکاری اس بات سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ نام نہاد پریس کانفرنس دوران ڈیتھ اسکوائڈ کی سرغنہ کی موجود گی میں ظہیر یہ کہہ رہے ہیں کہ انھیں باڈر پر ایک بندے نے چھوڑا اور کہاکہ اب آزاد ہو ،جس کا مطلب وہ انکے تحویل میں تھا ، مگر پریس کانفرنس دوران ڈیتھ اسکوائڈ کا ایک کارندہ میڈیا میں یہ غلط بیانی کر رہے ہیں کہ وہ کسی اور ملک اپنے ذاتی کام سے گیا ہواتھا ،سوال یہ ہے وہ ایک بزنس مین ہیں جب وہ ملک سے باہر گئے ہوئے تھے تو وہ جیب خالی اور راستے میں لفٹ لیتے ہوئے کیسے اپنے گھر بجائے ڈیتھ اسکوائڈ کے سرغنہ سردار کے گھر پہنچ جاتے ہیں؟ ۔ لاپتہ ظھیر کو جس انداز میں بزریعہ ڈیتھ اسکوائڈ کے سرغنہ منظر عام پر لاکر بیان دلوایا گیاہے اس سے صاف ظاہر ہواکہ وہ فوج کے تحویل میں تھے اور اب انھیں سانحہ زیارت کے گیارہ شہدا کے کیس کو کمزور کرنے کیلے منظر عام پر لایا گیاہے ۔ جس کا اعتراف ڈیتھ اسکوائڈ کے سرغنہ نے لاشعوری پریس کانفرنس میں کر دیاہے، جب وہ بات شروع کرتے ہیں تو وہ شروع سے آخر تک پاکستانی فوج اور ایجنسیوں کے گیت گاتے نظر آرہے ہیں ۔ اس کے علاوہ پریس کانفرنس دوران وہ خود اتنے حواس باختہ ہوگئے ہیں کہ پریس کانفرنس کے اختتام پر وہ ظہیر کو یہاں سے اٹھ جانے کا حکم تلج لہجے میں بار بارب دے رہے ہیں ۔ اور انھوں نے دودفعہ دھرایا کہ آپ یہاں سے اٹھ کراندر چلے جائیں ۔ جب مزکورہ کارندہ تلخ لہجے میں حکم دے رہے تھے اس دوران ظہیر بلوچ انتہائی خوفزدہ تھے اور گھبرائے ہوئے تھے ۔ وہ اٹھ کر اکیلے چلے جاتے ہیں ۔ جس کا مطلب ان کے ورثا کو ان سے آزادانہ ملنے نہیں دیا جارہاہے ۔ اور وہ غیر اعلانیہ مزکورہ ڈیتھ اسکوائڈ کے سرغنہ کے تحویل میں ہیں ۔ اور انھیں روبوٹ کے طورپر استعمال کیا جارہاہے ۔ عموما پریس کانفرنس کے اختتام پر صحافی سوال کرتے ہیں مگر یہاں کسی کو اجازت نہیں تھا کہ وہ سوال کریں ۔ اس کا مطلب بھی صاف تھا کہ یہ ایک منصوبہ کے تحت فوج کو بچانے سانحہ زیارت کے شہدا کے کیس کو کمزور کرنے کیلے بطور ثبوت میڈیا میں لاکر اپنے مرضی کا بیا ن دلواکر کیس کو کمزور کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ۔ جیساکہ ڈیتھ اسکوائڈ کے سرغنہ نے اپنے نادانی میں اعتراف کردیا ہے کہ وہ انھیں عدالت میں پیش کرواکر زیارت کیس کو کمزور کریں گے ۔ قارئین کرام اگر انجنیئر ظہیر اغوا اور لاپتہ نہ ہوتے جیساکہ ڈیتھ اسکوائڈ کے سرغنہ کا کہنا ہے تو وہ یہ بات کبھی نہیں کرتے کہ میں سمجھ رہاتھا زندگی کا اختتام ہے اور اب سمجھتاہوں مجھے نئی زندگی ملی ہے ۔ یہاں وہ اللہ تعالی کا شکر بجالاتے ہیں ۔ ایک حوالے سے انھوں نے اپنا مدعا دو الفاظ ہی میں بیان کر نے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ انھیں فورسز نے جبری لاپتہ کردیاتھا اور انھیں اب فورسز اپنی مجبوری کے تحت منظر عام پر لیکر آئے ہیں تاکہ بلوچ لاپتہ افراد کے کیس کو کمزور کیا جاسکے ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post