شال ( اسٹاف رپورٹر سے، ویب ڈیسک ) بلوچستان میں بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث ہر طرف تباہی کے مناظر ہیں۔ لسبیلہ، کچھی، جھل مگسی، پنجگور اور قلات میں متعدد شہری اور دیہی علاقوں کی رابطہ سڑکیں گزشتہ کئی روز سے بند اور دیہات کے دیہات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
رپورٹ مطابق خوراک اور پینے کے صاف پانی کی قلت پیدا ہو گئی ہے ۔ قیمتی جانیں ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس کا نظام درہم برہم ہونے سے رابطوں میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔
قلعہ سیف اللہ میں سیلابی ریلوں میں پانچ افراد جاں بحق ہو گئے ہیں ۔
ضلع چاغی میں بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب سے جاری بارشوں سے ندی نالوں میں طغیانی آ گئی ہے۔ سرکاری سطح پر بلوچستان بھرسے اب تک 111 افراد کے جاں بحق ہونے اور دس ہزار سے زائد مکانات کے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔
جھل مگسی میں مقامی انتظامیہ کے مطابق سیلابی ریلے کے بعد ضلع جھل مگسی کے ہیڈ کوارٹر گنداواہ سے تمام دیہی علاقوں کا زمین راستہ تاحال منقطع ہے۔ راستے بند ہونے کی وجہ سے قاضی اسماعیل اور گہیلا میں دو حاملہ خواتین ہسپتال نہیں پہنچائی جا سکیں جو دوران زچگی انتقال کر گئیں۔
شہر تک رسائی نہ ہونے اور متعدد گاؤں زیر آب آنے سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خوراک اور پینے کے صاف پانی کی قلت ہو گئی ہے۔
گنداواہ شہر میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ درجنوں گھر سیلاب کے زد میں آ گئے ہیں۔ لوگوں کا گھریلو سامان اناج سمیت پانی میں بہہ گیا ہے۔
قاضی محلہ کے متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مدد آپ محفوظ مقام تک پہنچے ہیں۔ تین دن تک وہ بھوک اور پیاس کا شکار رہے۔ حکومت کی طرف سے کسی قسم کی کوئی امداد نہیں ملی ہے۔
ضلع قلات کے مختلف علاقوں میں صورت حال گھمبیر ہے۔یونین کونسل گزگ میں بارشوں نے تباہی مچادی ہے اور سیلابی ریلوں کے باعث گزگ، امیری، نیچاری، پندران، جوہان، روشچوبب، لہڑی اور دیگر علاقوں کے شہر سے رابطے سڑکیں بند ہیں، جس سے ان علاقوں میں خوراک کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔
ضلع پنجگور میں بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث سی پیک روڈ پر مختلف جگہوں پر پلوں میں شگاف پڑنے سے راستے بند ہو گئے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق گوارگو کا ٹاگری کا پل ٹوٹ گیا ہے۔ گوارگو اور لشکران کور کے مقام پر آمد و رفت معطل ہے۔
ضلع چاغی کے مختلف علاقوں میں رات گئے بارشوں کا سلسلہ جاری ہے جس سے ندی نالوں میں طغیانی آ گئی ہے اور نشیبی علاقے زیر آب آ گئے ہیں۔ بلوچستان افغان سرحدی علاقہ براب چاہ میں سیلابی ریلہ آنے سے کچی دکانوں اور مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔
ضلع قلعہ سیف اللہ میں موسلا دھار بارشوں سے مختلف علاقوں میں سیلابی ریلوں میں پانچ افراد بہہ کر جاں بحق ہو گئے ہیں۔ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ کان مہترزئی، کلی زغلو میں چار جب کہ قلندرہ ملازئی میں ندی سے ایک نعش ملی ہے۔
کان مہترزئی اور مسلم باغ میں متعدد مکانات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
ادھر لسبیلہ میں کئی علاقے تاحال پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ مختلف مقامات پر ہاریوں کے پھنسے ہونے کا خدشہ ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے زمینداروں سے ہاریوں اور کاشت کاروں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں تاکہ انہیں ریسکیو کیا جا سکے۔
دریں اثناء چیف سیکرٹری بلوچستان نے ڈی جی پی ڈی ای اے اور چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ہم راہ پریس کانفرنس کی ہے ۔ چیف سیکرٹری کا کہنا تھا کہ صوبے میں تین سالوں کے دوران کی بارشوں کی نسبت حالیہ بارشیں پانچ سو فی صد زیادہ ریکارڈ ہوئی ہیں۔
بلوچستان کے دس اضلاع بارشوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ چھ بڑے پل، دس ہزار مکانوں کو نقصان پہنچا ہے، جب کہ چھ ہزار سات سو مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔
چیف سیکرٹری کے مطابق بلوچستان میں بارشوں اور سیلابی ریلوں کے نتیجے میں اب تک 111 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جن میں خواتین اور بچے بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ دو افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
ریسکیو اور ریلیف آپریشن سے متعلق عبدالعزیز عقیلی نے بتایا کہ بلوچستان میں سیلابی صورت حال کے باعث حکومت کو کافی چیلنجز کا سامنا ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ دس ہزار 645 ٹینٹ اور دیگر سامان متاثرین میں تقسیم کیے گئے ہیں۔ 17ہزار پانچ سو افراد کو ریسکیو کیا گیا ہے۔ جب کہ چار ریلیف کیمپ لگائے گئے ہیں۔
چیف سیکرٹری نے بتایا کہ پری مون سون سے قبل ہی بارشوں کی پیش گوئی پر تمام متعلقہ اداروں کے عملے کی چھٹیاں منسوخ کر دی تھیں۔ اب روزانہ کی بنیاد پر ڈپٹی کمشنرز کے ساتھ میٹنگ کی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں دفعہ 144نافذ کی گئی ہے۔
انہوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ کوئٹہ سے کراچی قومی شاہراہ بھاری ٹریفک کے لیے معطل ہے۔
شہری دس روز تک غیر ضروری سفر کرنے سے گریز کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور حکومت بلوچستان کی جانب سے ہلاک افراد کے لیے دس دس لاکھ روپے معاوضہ دیا جا رہا ہے۔
جن لوگوں کے مال مویشی کا نقصان ہوا ہے، ان کو بھی معاوضہ دیا جائے گا۔