شال : ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کمپنی کی طرف سے بنائے گئے اسپائیویئر ’ پیگا سس ‘ پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب ایک مرتبہ پیگاسس خفیہ طریقے سے آپ کے فون پر انسٹال کیا جائے تو یہ آپ کے تمام ڈیٹا تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یہ اسپائیویئر آپ کے لوکیشن کو ٹریک کرسکتا ہے، آپ کی گفتگو کو سن سکتا ہے ، آپ کے فون کے کیمرہ کو آن کرسکتا ہے اور جب آپ سو رہے ہیں تب آپ پر نظر رکھ سکتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ٹویٹ ریپلائیز میں بعض افراد نے کہا گوگل اور فیس بک بھی یہی کر رہے ہیں ہمیں اس پر بھی آگاہی دینی چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ٹویٹ کو ’کوٹ‘ کرتے ہوئے بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری اطلاعات و ثقافت قاضی داد محمد ریحان نے کہا حالیہ دنوں میں پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے بلوچ آزادی پسندوں کو فون کے ذریعے ٹریک کرکے انھیں جانی نقصان پہنچانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہی ہے ۔
انھوں نے کہا اب تک کم از کم اس طرح کے دو واقعات ریکارڈ پر آچکے ہیں جن میں فون کے ذریعے سیاسی کارکنان کو ٹریک کرکے انھیں جبری لاپتہ کیا گیا۔
انھوں نے مزید کہا اگر یہ ٹیکنالوجی جاسوسی کے لیے استعمال ہوئی تو دنیا بری طرح غیرمحفوظ جگہ بن جائے گی۔
گذشتہ دنوں بھی بی این ایم کے انفارمیشن سیکریٹری نے خبردار کیا تھا کہ ایک شخص ایرانی فون نمبر کے ذریعے خود کو بی این ایم کا جونیئرجوائنٹ سیکریٹری بتا کر پارٹی کارکنان سے ان کے گھرکے پتے، لوکیشن اور تصاویر مانگ رہا ہے۔
اس سے قبل بی این ایم کے سیشن کے فوری بعد پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات نے ایک ٹویٹ میں ٹیلی گرام پر پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹرنسیم بلوچ کے نام پر بنائے گئے جعلی اکاؤنٹ کے بارے میں بھی خبردار کیا تھا جس نے خود کو ڈاکٹر نسیم ظاہر کرکے بعض برادر اقوام کی تنظیموں کے رہنماؤں سے رابطہ کیا تھا۔
قاضی ریحان نے اس پر مزید گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی فوج فون کے ذریعے پیگاسس یا اس سے ملتی جلتی ٹکنالوجی استعمال کرکے سیاسی کارکنان اور بلوچ رہنماؤں کے فون تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ انھیں ٹریک کرکے جانی نقصان پہنچا سکے۔اس لیے بلوچ آزادی پسند کارکنان کو اسمارٹ فون کے استعمال میں احتیاط کرنی چاہیے۔ کارکنان کو غیرضروری سوشل میڈیا رابطوں سے گریز کرتے ہوئے اپنے کام پر توجہ دینا چاہیے۔ سوشل میڈیا ایکٹیوزم کو صرف بلوچ قوم دوست سیاسی جماعتوں کے بیانیہ کی تشہیر اور قومی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا جائے نہ کہ اس کو ذاتی پروجیکشن اور رابطوں کا ذریعہ بنایا جائے جو کارکنان کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔
انھوں نے تاکید کی کہ کارکنان فون پر کسی انجان سے کسی قسم کا ڈیٹا حاصل نہ کریں اور اگر کوئی انجان شخص آپ کو لنک بھیجے تو اسے مت کھولیں۔ غیرضروری اور غیرمحفوط گروپس میں شامل نہ ہوں اور گروپس میں شامل افراد کی طرف سے رابطے پر کوئی ردعمل اور جواب نہ دیں۔
تاہم انھوں نے کہا کہ اسمارٹ فون یا کسی بھی فون لائن کو مکمل طور پر محفوظ نہیں کیا جاسکتا نہ ہی اس خوش فہمی میں رہنا چاہیے کہ آپ مکمل حفاظتی اقدامات کرسکتے ہیں لیکن ہمیں اپنے اور اپنے دوستوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن احتیاط کرنی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ہر سال ذاتی طور پر اوسطا چار سے پانچ ایسے حملوں کا سامنا کرتے ہیں جن میں ان کے فون تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کے لیے ہربار مختلف حربے آزمائے جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا صحافی ، خوبصورت خواتین ، ہمدرد ہمسایہ ممالک کے شہری یا گورنمنٹ آفیشلز اور آپ کے پہچان اور رابطے کے کسی بھی شخص کے جعلی پہچان کے ذریعے آپ کے فون کو ہیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک کیس میں ’زرمبش زیمر‘ کے ایک کمپیوٹر کو رینسم ویئر کے ذریعے نشانہ بنایا گیا اور زرمبش کے ریلیز کے لیے تیار ایک پورے البم اور رکارڈ کو ناکارہ کیا گیا۔جس سے ادارے کو لاکھوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔
قاضی ریحان نے مزید کہا کہ اب تک ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ ہمیں ہر ممکن طور پر اپنے فون کو کسی ایسے سوفٹ ویئر سے بچانا ہے جس کے ہمارے فون میں انسٹال ہوتے ہی ہمارا فون ہیک ہوسکتا ہے۔ اس لیے صرف قابل بھروسہ سوفٹ ویئر استعمال کریں۔ واٹساپ اور دیگر میسنجر سروسز کا کوئی ایسا ورژن استعمال نہ کریں جو آفیشل طور پر ریلیز نہ ہوا ہو۔ سوفٹ ویئر استعمال کرنے کے لیے گوگل پلے اور ایپل اسٹورز پر ہی بھروسہ کریں۔اپنے خاص ذاتی تصاویر اپنے ایسے فون میں نہ رکھیں جسے آپ انٹرنیٹ سے منسلک کرکے استعمال کرتے ہوں۔
.