کوئٹہ ( اسٹاف رپورٹرز سے ) وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ، وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے زیارت واقعہ پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا ہمارا مطالبہ برقرار ہے، زیارت واقعہ کے حوالے جلد سے جلد حقائق سامنے لائے جائیں۔
میڈیا سے گفتگو میں وی بی ایم پی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ زیارت واقعے کے حوالے سے ہمارا مطالبہ جوڈیشل کمیشن بنانے کا تھا، انجینئر ظہیر بلوچ کے لواحقین نے کسی اور شخص کی نعش کو وصول کرکے دفنایا ہے جس کی پھر سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
نصر اللہ بلوچ نے کہا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ زیارت سے برآمد ہونے والے نعشوں کی ڈی این اے کرکے لواحقین کے حوالے کریں۔
انھوں نے مزید کہا کہ زیارت میں قتل ہونے والے لاپتہ افراد تھیں اور ہمارے پاس ان افراد کے کیسز موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سردار نور احمد بنگلزئی کے مؤقف کو رد کرتے ہیں، ظہیر جبری لاپتہ تھا اور زبردستی پریس کانفرنس کروا کر حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے-
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماؤں نے مزید کہا ہے کہ انتظامیہ اور ادارے مسئلے کو حل کرنے کی بجائے مزید پیچیدہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں-
آپ کو علم ہے زیارت سے برآمد ہونے والے نعشوں میں ایک کی شناخت ظہیر بلوچ کے نام سے ہوئی تھی، ظہیر کے لواحقین نے اس نعش کی تصدیق کرتے ہوئے اسپتال سے وصول کرکے اسکی تدفین کردی تھی تاہم ظہیر بلوچ آج ڈرامائی طور پر منظر عام پر آگئے۔
انجینئر ظہیر بلوچ کو منظر عام پر لاکر ایران سے برآمد ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ ظہیر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنماء سردار نور احمد بنگلزئی نے دعویٰ کیا ہے کہ ظہیر ایرانی حکام کے تحویل میں تھا۔
نور احمد بنگلزئی کے رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کے موقع پر انجینئر ظہیر بھی موجود تھا جس نے دعویٰ کیا کہ وہ دس مہینے ایرانی فورسز کی قید میں تھا جنہیں گذشتہ روز آنکھوں پر پٹی باندھ کر تفتان میں چھوڑ دیا گیا جس کے بعد نوشکی سے انہوں نے اپنے کزن سے رابطہ کیا اور مستونک پہنچ گئے۔
تاہم مختلف حلقوں کی جانب سے ظہیر بلوچ کے پریس کانفرنس پر شکوک کا اظہار کیا جارہا ہے۔ بعض حلقوں کیجانب سے اس کو منصوبہ بندی کے تحت پریس کانفرنس کہہ کر سوالات اٹھائے جارہے ہیں جبکہ سماجی رابطوں کی سائٹ پر آنے والی ایک ویڈیو میں نور احمد بنگلزئی کو نامعلوم شخص سے فون پر ہدایات لیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
واضح رہے انجنیئر ظہیر کے جبری گمشدگی کی ایف آئی آر ان کے لواحقین نے کوئٹہ میں درج کروائی تھی جبکہ انکے وکیل کا دعویٰ ہے کہ انجینئر ظہیر کو جب فورسز نے لاپتہ کیا اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہیں۔