وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 4684 دن مکمل ہوگئے، بی ایس او پجار کے چیرمین زبیر بلوچ، ثنا بلوچ اور بلال بلوچ نے کیمپ آ کر لواحقین سے اظہار یکجھتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس بات کو رد نہیں کرسکتا کہ نوجوان کسی قوم کی ریڈ کی حیثیت رکھتیں ہیں قومی تحریکوں میں نوجوانوں کا اہم کردار رہا ہے اگر تم کسی قوم کو بغیر جنگ کے تباہ کرنا چاہتے ہیں تو اس قوم کے نوجوانوں میں منشیات اور فحاشیاں عام کرو تو وہ قوم جلدی تباہ ہو جائے گا بغیر لڑے غلامی قبول کریں گا۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی آواز مذہب دنیا اور امریکی ایوانوں تک پہنچ چکی ہیں پاکستانی ریاست اور مقامی گماشتے پارٹیوں کی لیڈر شپ بے چینی میں اصافہ ہوا ہے وہ یہی کہتے ہیں ہم پارلیمنٹ میں اپنا حقوق حاصل کرینگے لیکن نوجوان ان کی بات ماننے کو تیار نہیں بلوچ نوجوان ہر مشکل کھڑی میں سخت حالات کا سامنہ کر کہ پر امن جد وجہد سے دستبردار ہو نے کے بجائے موقف پر آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جبری لاپتہ بلوچ اسیران کے عدم بازیابی کے خلاف جبری لاپتہ بلوچ اسیران کے رشتہ داروں اور عزیزوں کے ہمراہ اپنا احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے 2001 سے لیکر اب تک 60000 کی قریب بلوچ خواتین، بچے، بزرگ اور نوجوان جبری لاپتہ ہیں اور اب تک جبری لاپتہ بلوچوں کے 20000 سے زائد مسخ شدہ لاشیں بھی برآمد ہو چکی ہے ان میں متعدد بلوچوں کو ٹارگٹ کر کے شہید کر دیا گیا ہے جن کو بعد میں جالی مقابلہ قرار دیا گیا بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں روز بروز شدت سے اصافہ ہوتا جارہا ہے جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کے برآمدگی کے واقعات میں کمی کے بجائے اصافہ ہوتا جارہا ہے اور لاپتہ بلوچوں کے اہل خانہ کو سنگین قسم کے دھمکیاں دی جارہی ہے سیکورٹی فورسز اور خفیہ ادارے کسی بھی قسم کے قانون و آئین کے پابند نہیں ہیں