بلوچ نیشنل موومنٹ کی طرف سے کیے گئے ایک مظاہرے میں شرکاء نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی برادری بلوچستان پر پاکستان کے مظالم کا نوٹس لے کیونکہ بلوچوں کے حقوق بھی ایک عام انسان کے برابر ہیں۔
ہفتے کے روز جرمنی کے شہر مونسٹر میں تشدد سے متاثرہ افراد کی حمایت کے عالمی دن اور منشیات اور اس کے اسمنگلنگ کے خلاف عالمی دن کی مناسبت سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔جس میں بلوچ نیشنل موومنٹ اور بلوچ ری پبلکن پارٹی کے کارکنان نے شرکت کی۔مظاہرے میں انگلش اور جرمن زبان میں پمفلٹ تقسیم کیے گئے جس میں مقامی لوگوں کو بلوچستان کی موجود صورتحال اور آئے روز بلوچستان پر جبر اور سفاکیت کے بارے میں مہذب دنیا اور جرمنی کے مقامی لوگوں کو آگاہی دی۔ مظاہرے کے شرکاء نے جبری گمشدگیوں کے خلاف بھرپور نعرے بازی کی اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی کہ بلوچستان میں پاکستان کی طرف سے غیر انسانی رویے کے خلاف نوٹس لینے کی درخواست کی کیونکہ بلوچوں کے حقوق بھی ایک عام انسان کے برابر ہیں۔
مظاہرے سے خطاب کرتے ہو جرمنی چپیٹر کے صدر اصغر علی نے کہ پاکستان آئے روز بلوچستان پر ظلم و تشدد کی نئی داستان رقم کر رہا ہے۔ آج بلوچستان میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب جبری گمشدگان کے اہل خانہ کو بھی تشدد کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ اس کی واضح مثال ڈاکٹر دین محمد کی بیٹیوں کو زد و کوب کرنا، جبری گمشدگی کے شکار لوگوں کے خاندان پر سندھ پولیس کی جانب سے تشدد، اور ان کو گھسیٹ کر پولیس وین میں ڈال دینا ثابت کرتا کہ پاکستان بلوچوں کو دن بہ دن مزید تشدد کا شکار بناتا جائے گا۔
اصغر علی نے مزید کہا کہ پچھلے دو دہایوں میں پاکستان نے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سیاسی،سماجی کارکن اور زندگی کے طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا ہے اور وہ سالوں سے پاکستان کے عقوبت خانوں میں غیر انسانی تشدد سہہ رہے ہیں۔ ڈاکٹر دین محمد کو آج تیرہ سال ہوا چاہتا ہے کی پاکستان کے خفیہ اداروں نے ان کو اورناچ سے دوران ڈیوٹی جبری گمشدگی کا شکار بنایا۔ اور اس کی بیٹیاں پچھلے تیرہ سالوں سے اپنے والد کی بازیابی کے لیے پاکستان کے شاہراہوں میں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اب تیرہ سالوں میں ان کو مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں ملا۔
بلوچ نيشنل موومنٹ جرمنی کی نائب صدر سمل نے منشیات اور اس کے اسمنگلنگ کے خلاف عالمی دن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں منشیات کو پھیلانے میں پاکستان اور اس کی فوج کا بڑا ہاتھ ہے۔ عالمی دنیا منشیات کو پھیلانے کے ساتھ بڑے راستے بلوچستان سے ہوکر گزرتے ہیں۔ بلوچستان کے علاقے آواران میں ڈرگز مافیا کو پاکستان کی آشیرواد حاصل ہے ۔ بلوچستان کے گاؤں گاؤں میں لوگ منشیات کی لت میں مبتلا ہورہے ہیں۔آج کا نوجوان ڈرگز کی کثرت استعمال سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ جس میں نفسیاتی بیماری،ڈپریش اور اس کے علاوہ بے روزگاری شامل ہے۔ نوجوان کسی بھی قوم کے مسقبل کے معمار ہوتے ہیں، لیکن بلوچستان میں بچہ بچہ منشیات کے لت میں مبتلا ہوتا جارہا ہے۔ لیکن پاکستان کی ریاست اپنی کالونیل پالیسی کو تقویت دینے کے لیے منشیات کے غیر قانونی کاروبار کو بڑھاوا دے رہی ہے تاکہ بلوچستان کے مسقبل کو مفلوج بنایا جائے ۔یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے تاکہ پاکستان اپنی استعماری حیثیت کو بلوچستان میں برقرار رکھ سکے۔ بلوچستان کے لوگ پہلے سے ہی پاکستان کی جانب سے سالوں کے جبر کے خلاف بے شمار قربانی دے چکے ہیں اور پاکستان اس منشیات کی فروغ پربلوچ قوم کو تباہی کی جانب دھکیل رہا ہے۔
بی این ایم جرمنی چپیٹر کے جوائنٹ سیکرٹری شارحسن بلوچ نے کہا کہ پاکستان اپنے جبر کے آخری حدود تک پہنچ چکا ہے۔ بلوچ عورتوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنا اور ان کو تشدد کرنا ایک غیر انسانی روش ہے اور دنیا کو چاہئے کہ وہ اس جبر پر لب کشائی کریں اور پاکستان کو بلوچ نسل کشی پر جوابدہ کریں۔
بی این ایم کے ممبر صادق سعید بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ بلوچستان میں 40 ہزار سے زیادہ بلوچوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا ہے۔ہزاروں بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکے گئے ہیں اور یہ سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے جس میں عام بلوچوں سے لے کر بلوچ طلباء اور عورتوں تک کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ہر گاؤں، گلیوں اور تعلیمی اداروں میں پاکستانی فورسز لوگوں کو بلاوجہ تنگ کرتی ہے۔
بی آر پی کے جرمنی میں رہنما جلیل بلوچ نے کہا کہ آج یہاں پر پروگرام کا مقصد بلوچستان میں پاکستان کی جانب سے غیر انسانی تشدد کو دنیا کے سامنے ظاہر کرنا ہے۔ ہم بلوچستان میں جبری گمشدگی کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اور ہم عالمی دنیا سے درخواست کرتے ہیں بلوچستان میں جتنی جبری گمشدگیاں ہورہی ہیں وہ اس میں ہماری آواز بن جائیں۔
مقررین میں بدل بلوچ، ایمان بلوچ،بشیر بلوچ ، امجد بلوچ، احمد بلوچ نے بلوچستان پر ہونے والے مظالم پر تقاریر کی۔