بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ کے ہاکی گراؤنڈ میں پشتونخوامیپ کے زیر اہتمام پشتون قومی سیاسی تحریک کے مبارز رہنما ملی اتل ملی عثمان خان کاکڑ کی شہادت کی پہلی برسی پر ایک عظیم الشان جلسہ کا انعقاد کیا گیا۔
جلسے کی صدارت پارٹی چیئرمین محمود کان اچکزئی نے کی۔ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل مختیار خان یوسفزئی،سینئر ڈپٹی چیئرمین عبدالرحیم زیارتوال، مرکزی سیکرٹری اطلاعات رضا محمد رضا، مرکزی سیکرٹری عبید اللہ جان بابت، محترمہ وڑانگہ لونی،صوبائی نائب صدر یوسف خان کاکڑ، صوبائی سیکرٹری اطلاعات خوشحال خان کاکڑ،ضلعی سیکرٹری قلعہ سیف اللہ چیئرمین اللہ نور خان نے خطاب کیا۔
سٹیج سیکرٹری کے فرائض پارٹی کے بلوچستان سیکرٹری ورکن بلوچستان اسمبلی نصراللہ خان زیرے نے سرانجام دی جبکہ جلسے کی قراردادیں صوبائی سینئر نائب صدر محمد عیسیٰ روشان نے پیش۔ اور تلاوت کلام پاک کی سعاد ت حافظ مطیع اللہ نے حاصل کی۔
محمود خان اچکزئی نے پارٹی کے تمام کارکنوں اور پارٹی اداروں کے عہدیداروں کو ملی عثمان کاکڑ کی پہلی برسی پر عظیم الشان جلسہ عام کا انعقاد کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کارکنوں او رعہدیداروں نے اپنی محنت سے فقید المثال تاریخی اجتماع کے ذریعے پارٹی رہنماء عثمان خان کاکڑ کو ان کے عظیم قومی خدمات اور قربانیوں پر زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔
انہو ں نے کہا کہ ہم عثمان خان کاکڑ کی پہلی برسی ایسے حالات میں منارہے ہیں کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان اور ایران کی اختیار کردہ پالیسیوں کے نتیجے میں اس خطے کو تشویشناک صورتحال کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں عثمان خان کی برسی پر پاکستان کے سٹیبلشمنٹ اور پاکستان اورایران کے حکمرانوں کو افغانستان سے متعلق اختیار کردہ پالیسیوں کے تباہ کن نتائج پر بات کرنا چاہتا ہوں اور اپنے ملک کے حکمرانوں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ افغانستان نے اپنی تاریخ میں کسی کی غلامی قبول نہیں کی ہے جب ترکی کے علاوہ تمام اسلامی دنیا پر استعماری قوتوں کا راج قائم ہوا تو اْس وقت بھی غیور افغانوں نے اپنی استقلال وآزادی کی پرچم کو بلند رکھا۔ افغانستان بڑے بڑے عالمی استعماری سلطنتوں کا قبرستان بنا رہا ہے جن قوموں اور جن علاقوں کے عوام نے طویل غلامی میں زندگی گزاری ہے اْن کو آزادی کی قدر وقیمت کا اندازہ نہیں۔ افغان عوام نے ہمیشہ اپنے سروں کی قیمت پر اپنے محبوب وطن کی استقلال وآزادی کا دفاع کیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پشتونخوامیپ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ پاکستان کی فوج اور جاسوسی ادارے نہ ہو، پاکستان ہمارا ملک ہے اس کی فوج اور اداروں میں پشتونوں اور دیگر تمام اقوام وعوام کا حصہ ہے۔ ہمارا مطالبہ شروع سے یہی رہا ہے کہ پاکستان کی فوج میں پشتونوں اور تمام قوموں کا مساوی حصہ ہو اور یہ کہ پاکستان کی سیاست میں سٹیبلشمنٹ کی مداخلت نہ ہو۔پشتونخوامیپ کی اس برحق موقف کی پاداش میں ہم پرناروا جنگ مسلط کی گئی حالانکہ ہم نے پاکستان کے خلاف بندوق نہیں اٹھایا بلکہ پاکستان کے حکمرانوں کو صحیح راستہ دکھایا تھا۔ بلاآخر ہماری اس موقف کو میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنا لیا۔ آج اگر دعوے کی حد تک ہمارے جرنیل کہتے ہیں کہ ہم سیاست میں مداخلت سے دستبردار ہونے کی بات کرتے ہیں تو ہم اْنہیں مبارکباد دیتے ہیں اگر یہ حقیقت ہے تو یہ خوش آئند ہے۔
انہوں نے کہاکہ یوکرائن کی جنگ نے خطے کو خطرناک صورتحال سے دوچار کیا ہے۔اور ہمارے ملک کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ملک کا معاشی بحران تباہ کن صورتحال اختیار کرچکا ہے۔ اگر کسی کو پاکستان کی دفاع عزیز ہے تو اْن کو افغانستان کی استقلال وآزادی کا دفاع کرنا ہوگاکیونکہ پاکستان کی دفاع افغانستان کی دفاع سے مشروط ہے۔اگر خدانخواستہ افغانستان کی استقلال وآزادی کا خاتمہ ہوا تو پاکستان اور ایران کی آزادی کا برقرار رہنا ناممکن ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ صدر غلام اسحاق خان کی دور کے افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے اور ہمارے جرنیلوں کی سٹریٹیجک ڈیتھ کی پالیسی تباہ کن ثابت ہوگی ہماری سٹیبلشمنٹ کو اس افغان دشمن پالیسی سے دستبردار ہونا ہوگا۔ اْن کو افغانستان کی استقلال، آزادی اور ملی حاکمیت کو صدق دل سے تسلیم کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فیڈریشن میں شامل پشتون افغان افغانستان کی ملی استقلال اور آزادی کا دفاع اپنا ملی اور دینی فریضہ تصور کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ون یونٹ کا خاتمہ جنرل یحییٰ کے مارشلائی حکم پر ہوا۔ اور بولان تا چترال اپنے تاریخی علاقوں پر آباد پشتون متحدہ اور بااختیار قومی صوبہ کی حق سے محروم ہوئے حالانکہ لفظ پاکستان پنجاب، افغانیہ،کشمیر،سندھ اور بلوچستان سے بنا ہے ہم پاکستان کے جمہوری فیڈریشن میں رہنا چاہتے ہیں لیکن برابر اور بااختیار قوم کی حیثیت سے جس میں ہمیں اپنی تاریخی سرزمین کے قدرتی وسائل ومعدنات پر قومی حق ملکیت حاصل ہو۔ افغانستان کی مشکلات کے وقت جب پاکستان اور ایران نے افغان کڈوال کی مددکی اْس پر افغان عوام ْان کے مشکور ہیں۔ افغانستان کی جن علاقوں پر انگریزوں نے قبضہ جمایا تو انگریز استعمارگروں کی ایک رائے یہ تھی کہ مقبوضہ علاقوں کو افغانوں کے حوالے کرکے امو اور اباسین کے درمیان افغان مملکت کو روس اور برٹش انڈیا کے درمیان بفرسٹیٹ قائم کیا جائے۔ مگر اس رائے کو تسلیم نہ کیا گیا اور پھر افغانستان میگناٹن اور برنز جیسے دیگر انگریزوں کاقبرستان بنا۔ اگر افغانستان کی سرزمین پر استعماری قبضے کا استعماری فکر ترک نہ کیا گیا تو افغانستان پاکستان اور ایران جیسے استعمار گروں کا قبرستان بنے گا۔ کیونکہ افغانستان کی تاریخ یہ ہے کہ استعمار گروں کے مقابلے میں وہ تمام عالم اسلام کے لیئے دارالامان بنا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 1965اور 1971کی پاکستان ہندوستان جنگ میں افغانستان کے ظاہرشاہ نے غیر جانبداررہ کر کہا کہ اگر چہ پاکستان کے ساتھ ہمارے مسائل ہیں لیکن ہم مسلمان ملک کیلئے مسئلہ نہیں بنائینگے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کی استقلال وآزادی کا احترام اور پر امن بقاء باہمی کی اصولوں کی بنیاد پر عدم مداخلت اور باہمی تعاون کے دوستانہ تعلقات دونوں ممالک کے امن وترقی کا بہترین راستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا موجودہ سنگین معاشی بحران سٹیبلشمنٹ کی عوام دشمن پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ہمارے غریب عوام کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ ہم شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن صاحب پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے عوام میں اس معاشی بحران کو برداشت کرنے کی سکت نہیں۔ نئے انتخابات کرنے کے بعد بھی اس سنگین معاشی بحران کا حل اتنا آسان کام نہیں۔پاکستان کے اس سنگین معاشی بحران کے حل کیلئے ملک کے معاشی نظام میں بنیادی تبدیلوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کو طاقت کا سرچشمہ تسلیم نہ کیا گیا اور سینٹ کو قومی اسمبلی کے برابر اختیارات نہیں ملے تو ہمارے مسائل کا حل ممکن نہیں۔
انہوں نے ملی عثمان خان کاکڑ کو اْن کی پرافتخار قومی خدمات اور قربانیوں پر زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پشتونخوامیپ ملی عثمان خان کاکڑ اور اپنے قومی شہدا کی یاد کو ہمیشہ تازہ رکھے گی۔