ڈاکٹر دین محمد کی بیٹیاں احتجاجی کیمپوں میں بڑی ہوئیں – ڈاکٹرنسیم بلوچ

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم نے کہا ہے کہ جو افراد جبری لاپتہ ہیں ان کے خاندان بھی متاثر ہیں جیسا کہ ڈاکٹر دین محمد کا خاندان کہ ان کی بیٹیاں احتجاجی کیمپوں میں بڑی ہوئیں۔ انھوں نے یہ بات 26 جون اتوار کے روز تشدد سے متاثرہ افراد کے عالمی دن اور منشیات اور اس کی اسمنگلنگ کے خلاف عالمی دن کے موقع پر بی این ایم یوکے چیپٹر کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کی۔ 26 جون کو بلوچستان کے مختلف علاقوں اور بیرون وطن بی این ایم جرمنی چیپٹر، نیدر لینڈ چیپٹر اور یوکے چیپٹر کی طرف سے احتجاج اور پروگرامات منعقد کیے گئے۔ ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا یہ دن تشدد سے متاثرہ ان افراد کے بارے میں ہے جو کہ جبر اور تشدد کا شکار ہیں۔ آج بلوچستان کا ہر شخص تشدد سے متاثر ہے ایسا دن نہیں گزرتا کہ جس میں کسی بلوچ پر پاکستانی فورسز تشدد نہ کریں۔ جو افراد آج پاکستان کے ٹارچرسیلز میں قید ہیں ہم ان کو فراموش نہ کریں اگر ہم ان کے لیے آواز اٹھائیں، ہماری اور ان کے لواحقین کی آواز انھیں زندہ رکھیں گے اگر ہم ان کے لیے آواز اٹھائیں تو وہ کبھی اغواء نہیں ہوں گے۔ بی این ایم کے جونیئرجوائنٹ سیکریٹری حسن دوست نے پروگرام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم تشدد کا ذکر کرتے ہیں تو ہم بلوچ 1948 سے پاکستان کے جبر اور مظالم کا شکار ہیں۔وہ اپنے تمام وسائل بلوچ جہد کو کاؤنٹر کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے اور بلوچ قوم پر جبر کر رہا ہے۔ پاکستان نے اپنے تشدد کو بڑھانے کے لیے ڈیتھ اسکواڈ بنائے ہیں جو شہری آبادیوں پر چڑھائی کرکے لوگوں کو جبر اور خوف کا شکار بناتے ہیں۔ ان کی مدد سے پاکستان بلوچ سماج کو منشیات کا عادی بنا رہا ہے۔ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے سہہ ماہی زْرمبش کے ایڈیٹر حکیم بلوچ نے کہا پاکستان اپنے ڈیتھ اسکواڈ سے مل کر بلوچ سماج میں منشیات پھیلا رہا ہے۔ پاکستان ریاستی پالیسی کے تحت بلوچ سماج میں منشیات پھیلا رہا ہے تاکہ وہ بلوچ نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنا کر بلوچ تحریک کو کمزور کرسکے۔بلوچستان میں ایک عام شخص پاکستانی فورسز کے چیک پوسٹ سے نہیں گزرسکتا لیکن منشیات ان چیک پوسٹس سے آسانی سےگزر جاتی ہے۔ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم کے مرکزی کمیٹی کے ممبر فہیم بلوچ نے کہا جبر کا مقصد یہی ہے کہ ریاست لوگوں کو کنٹرول کرسکے لیکن جب کوئی شخص تشدد کا شکار ہوتا ہے تو اس کی تمام زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ بلوچستان میں آج لوگ کسی نہ کسی شکل میں تشدد کا شکار ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے جبری لاپتہ لواحقین کے لیے احتجاج کر رہے ہیں یا وہ جو آج پاکستان کے ٹارچرسیلز میں قید ہیں یا چاہئے عام شہری ہوں۔ آخر میں بی این ایم یوکے چیپٹر کے صدر منظور بلوچ نے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم تشدد کے خلاف بات کریں اور خاموش نہ ہوں۔ ضرور ایک دن عالمی ادارے اور دوسرے ملک ہماری آواز سنیں گے۔جبری گمشدگان کے خاندان اپنے جبری گمشدہ لواحقین کے لیے آواز اٹھائیں اور ان کی جبری گمشدگیوں کو انسانی حقوق کے اداروں میں اندراج کریں اور اپنی خاموشی کو توڑ دیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post