بلوچ قوم کے نام بلوچ بیٹی کا کھلا خط

مجھے آج انتہائی دل برداشتگی کے ساتھ یہ سب لکھنا پڑ رہا ہے، پچھلے چار سال سے میں بھرپور کوشش کرتی رہی کہ مجھے مناسب الفاظ ملیں تاکہ میں اپنا پیغام آپ سب تک پہنچا سکوں، لیکن کسی نہ کسی طرح مجھے لکھنے یا بولنے کا حوصلہ یا ہمت نہیں مل سکی۔ میری شادی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں اور نہ ہی نام نہاد بلوچ ایکٹوسٹس کو اپنے سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرنا چاہیے۔ جس طرح میری شاد کو لے کر مجھے اور میرے خاندان کو نام نہاد ایکٹوسٹس نے ہراساں کیا، گالیاں دیں، یہاں تک کہ میرے سسرال کو بھی نہیں بخشا، میں نے اس کو سب کو چھوڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی اور میرے والد بہت بہادری کیساتھ میرے ساتھ کھڑے رہے۔ کبھی کبھار تو پاکستان کی روایتی سیاست کو برقرار رکھتے ہوئے میرے والد کے سیاسی مخالفین نے یہ سوچا کہ اس کی بیٹی کی شادی کو لیکر اس پر الزامات لگائے جائیں جس سے ان کو تکلیف اور نقصان پہنچے گا، کیونکہ ان کے مخالفین کے پاس اور ایسا کچھ نہیں تھا جو وہ میرے والد کیخلاف استعمال کرسکتے۔ میرے خلاف اس کمپین میں غیر تو دور کی بات میرے کچھ نام نہاد رشتے دار بھی شامل رہے۔ آج میری نظر سے ایک ویڈیو سے گزری جہاں ایک بلوچ ایکٹوسٹ خود کو بلوچ ننگ و ناموس کے محافظ کہنے والے میرے والد پر انگلی اٹھا رہے تھے اور ان پر تنقید کررہے تھے، اس پر مجھے کوئی تعجب نہیں وہا کیونکہ یہ ان سب کا سیاسی حق ہے، لیکن وہاں مجھے اور میری شادی کو کیوں نشانہ بنایا گیا، مجھے حیرانگی تب نہیں ہوئی جب اس نے بھری محفل میں مجھے اور میری شادی کو اپنے سیاسی فادے کیلئے نشانہ بنایا لیکن مجھے حیرت تب ہوئی جب وہاں ہجوم میں بیٹھے میرے بلوچ بھائیوں نے اس کی باتوں پر تالیاں بجائیں اور واہ واہ کی؟ بلوچ خواتین کو آپ اپنی غیرت سمجھتے ہیں، لیکن جب آپ مائیک اٹھا کر اپنے سیاسی مخالفین کی خواتین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو کیا اس ذہنیت کے لوگوں سے بلوچ خواتین کیا توقع کرسکتی ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ صرف اپنے آپ کو ایکسپوز کرسکتے ہیں، یہ پہلی بار نہیں جب میرے والد کو میری شادی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، بلکہ پچھلے چار سال سے میرے والد کے تمام سیاسی مخالفین نے یہ زہر اگلا اور ان کو لگاتار ذاتیات کا نشانہ بنایا گیا۔ میرے ذہن میں اس وقت کافی سوالات چل رہے ہیں، جہاں تک مجھے پتہ ہے کہ کافی نیشنلسٹ فیملیز نے اپنے بیٹوں کی شادی پنجابی خاندانوں میں کروائی ہیں، لیکن آج تک ان کو کسی نے ایک لفظ نہیں کہا، میں بھی اس کیخلاف نہیں وہں، لیکن صرف خواتین ہونے کے ناطے مجھے کیوں اتنا ذاتی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کیا میں بلوچ نہیں ہوں؟ میں نے اپنی ساری زندگی بلوچ نیشنلزم پڑھی اور اس پر توجہ دی، اس کے بغیر کچھ نہیں کرنا چاہا، لیکن مجھے اس بات سے بہت تکلیف ہوئی، میرے ارادے پست ہونے لگے، سب سے اذیت ناک بات یہ ہے کہ مجھے ان کے سامنے ہراساں کیا گیا جن کے سامنے ہم اپنے حق و حقوق کی بات کرتے ہیں۔ مجھے ہر روز کہا گیا کہ آپ خاموش رہیں، جواب نہ دیں، نظر انداز کریں لیکن بس اب بہت ہوگیا، اپنے لیے میں آواز نہیں اٹھاﺅں گی تو کون اٹھائے گا، اب میں خاموش نہیں رہوں گی۔ صاحبزادی سردار اختر مینگل بانڑی مینگل کا کھلا خط

Post a Comment

Previous Post Next Post