تہران نے یونانی پرچم والے دو جہازوں کو پکڑنے کا دعوی کیا ہے جبکہ یونان نے ایران پر ’بحری قزاقی‘ کا الزام عائد کیا ہے۔ چند روز قبل ہی یونان نے کہا تھا کہ وہ روسی ٹینکر سے قبضے میں لیا گیا ایرانی تیل واشنگٹن بھیجے گا۔
یونان نے 27 مئی جمعے کے روز خلیج فارس میں ایران کے پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے یونانی پرچم والے دو بحری جہازوں پر ’’پرتشدد قبضے‘‘ کے خلاف احتجاج کیا۔ جمعے کو ہی یونان نے اپنے پہلے بیان میں کہا تھا کہ ایک ایرانی ہیلی کاپٹر یونانی پرچم والے جہاز ڈیلٹا پوزیڈون پر اترا تھا۔
یونانی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’اس ہیلی کاپٹر کے اترنے کے بعد ہی مسلح افراد نے جہاز کے عملے کو یرغمال بنا لیا۔‘‘ بیان کے مطابق ایرانی ساحل کے قریب تقریبا 22 نوٹیکل میل کے فاصلے پر بین الاقوامی پانیوں میں یہ واقعہ پیش آیا۔
یونانی وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’ایران کے ساحل کے قریب ہی یونانی پرچم والے ایک دوسرے بحری جہاز پر بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا ہے، جس پر سات یونانی شہری سوار تھے۔‘‘
ایک یونانی اہلکار نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ دوسرے جہاز کا نام ’پروڈنٹ واریئر‘ ہے۔ اس یونانی جہاز کی مالک کمپنی ’پولمبروس شپنگ‘ نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’کمپنی حکام کے ساتھ تعاون کر رہی ہے اور صورتحال کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘
یونانی حکام نے اس بات کی کوئی تفصیل نہیں بتائی ہے کہ جہاز کے پکڑے جانے کے وقت اس پر کون لوگ سوار تھے اور عملے کی شہریت کیا ہو سکتی ہے۔
ادھر امریکہ کے ایک دفاعی اہلکار نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا ہے کہ دونوں بحری جہاز ایران کے علاقائی پانیوں میں چلے گئے تھے۔ اہلکار کے مطابق دونوں جہازوں نے اپنی ٹریکنگ ڈیوائسز (راستے کی معلومات فراہم کرنے والے آلات) کو بند کر دیا تھا اور ان میں سے کسی بھی جہاز نے کسی طرح کی پریشانی کے بارے میں کسی کو کوئی اطلاع بھی نہیں دی تھی۔
دوسری جانب ایرانی فورسز پاسداران انقلاب نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کے فورسز نے دو ٹینکروں کو ’’خلاف ورزیوں کا مرتکب ہونے‘‘ کی وجہ سے اپنے قبضے میں لیا ہے، تاہم اس کے علاوہ مزید کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔
اس بیان کے رد عمل میں ایتھنز نے ایران پر ’’بحری قزاقی‘‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے بطور احتجاج ایرانی سفیر کو طلب کیا۔
چند روز قبل ہی یونان نے بحیرہ روم میں ایک روسی ٹینکر سے قبضے میں لیے گئے ایرانی تیل کو واشنگٹن پہنچانے کے اعلان کیا تھا۔ اس کے محض چند روز بعد یہ تازہ واقعہ پیش آيا ہے۔ اس سے قبل تہران نے کہا تھا کہ اس واقعے میں یونان کے کردار کے لیے وہ اس کے خلاف ’’بطور سزا کارروائی‘‘ کرے گا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سن 2018 میں ایران جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری کے بعد سے خلیج فارس میں اب تک ایسے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔ تاہم گزشتہ چند مہینوں سے اس خطے میں ایسا کوئی قابل ذکر واقعہ نہیں ہوا تھا۔
ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے بات چيت دوبارہ شروع ہوئی تھی تاہم فی الوقت یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں