اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے ضلع شیرانی کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے اس سال علاقے میں رہنے والے بہت سے لوگوں کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ چھین لیا ہے۔
واضع رہے کہ ضلع شیرانی کے سبز سونے یعنی چلغوزے کے درختوں کو راکھ اور دھوئیں میں تبدیل کرنے والی بے لگام آگ نے مقامی افراد کا ذریعہ معاش چھین لیا، جنہوں نے گزشتہ سال چلغوزے کی فروخت سے ساڑھے 3 ارب روپے کمائے تھے۔
ایف اے او گزشتہ 4 سال سے عالمی ماحولیاتی سہولت (جی ای ایف) پر کام کررہا ہے تا کہ چلغوزے کے جنگلات کا تحفظ کیا جائے اور مقامی افراد کے لیے نٹ پروسیسنگ متعارف کروا کر اس میوے کی قدر میں اضافہ کیا جائے۔
حکومتی اندازوں کے مطابق 31 کلومیٹر رقبے پر پھیلے جنگلات کو نقصان پہنچا اور جل گیا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق بلوچستان کے محکمہ ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی اور محکمہ جنگلات آگ لگنے کے بعد سے ان قیمتی اور منفرد جنگلات کو بچانے کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں۔
جیسے ہی آگ قابو سے باہر ہو ہونے لگی ایف اے او بھی آگ بجھانے کے لیے شروع کی گئی کارروائیوں میں مدد کے لیے تکنیکی مشورہ دینے اور محکمہ جنگلات کو آلات اور سامان فراہم کرنے کے لیے گراؤنڈ پر موجود پر تھا۔
زمینی صورتحال کا فوری جائزہ لینے کے بعد، ٹپوگرافی، ہوا کی سمت اور رفتار اور موسمیاتی پیشن گوئی کو دیکھتے ہوئے ایف اے او کے سینئر فاریسٹ آفیسر ڈاکٹر فیض الباری نے صوبائی حکومت سے کہا کہ سب سے زیادہ قابل عمل طریقہ یہ ہے کہ سمت میں فائر لائنز لگانے اور آگ کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ نچلے جنگلات میں آگ کو پھیلنے سے روکنے کے لیے خندقیں کھودنے کے روایتی طریقے استعمال کیے جائیں۔
ایف اے او کا کہنا ہے کہ یہ جنگلات منفرد ہیں کیونکہ یہ نایاب جنگلی جانوروں کا گھر، 90 فیصد مقامی کمیونٹی کے لیے ذریعہ معاش اور مقامی نباتات اور حیوانات کی پرورش کرتے ہیں۔
اب چونکہ جنگل کی آگ تقریباً ختم ہو چکی ہے، اگلا فوری قدم نقصان کا تخمینہ لگانا اور بحالی کا منصوبہ تیار کرنا ہے جو فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔
ایف اے او کا کہنا ہے کہ یہ بلوچستان حکومت اور اقوام متحدہ کے نظام کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔
اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر نے شراکت داروں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنے کے لیے اس ہفتے کے شروع میں ایک انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر اجلاس منعقد کیا ہے۔
دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی کی وزارت بھی جائزہ لینے کے کام کا آغاز کرچکی ہے