پاکستان میں صحافیوں کو تشدد کا سامنا، بلوچ صحافی سب سے زیادہ متاثر ہوئے – ایمنسٹی

ایمنسٹی انٹرنیشنل ساؤتھ ایشیاء نے پاکستان میں صحافیوں کے حالت زار اور میڈیا پر سنسر شب کو اظہار آزادی رائے پر قدغن قرار دیتے ہوئے حکومت سے پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے- جمعرات کے روز ایمنسٹی انٹرنیشنل ساؤتھ ایشیاء کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا پاکستان میں صحافیوں کو دھمکی ہراساں کئے جانے، سنسر شپ اور یہاں تک کے تشدد کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ادارے کے مطابق صحافیوں کے خلاف کاروائیوں پر کوئی احتساب نہیں کیا جارہا۔ ایمنسٹی ساؤتھ ایشیاء کے مطابق حکومت کی جانب سے (PECA) ترمیمی آرڈیننس پاکستان میں آظہار آزادی رائے کو سلب کرنے کی کوشش تھی۔ ایمنسٹی نے حکومت پاکستان سے احتجاج کی ہے کہ وہ ایسے اقدامات نہیں اٹھائے جس سے کسی بھی قسم کی اظہار آزادی پر پابندی عائد ہو ایسے قانون دراصل اظہار رائے آزادی کو کم کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں سنسر شپ کے چلتے صحافیوں کی تنظیم کے مطابق پاکستان میں گذشتہ دو سالوں کے دوران صحافیوں پر حملوں کے 86 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، 3 مئی کو عالمی سطح پر منائے جانے والے ’پریس فریڈم ڈے‘ کے حوالے سے جاری کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی جانب سے ڈرامائی انداز میں بڑھنے والے جبر کے نتیجے میں پاکستان میں صحافیوں کےلئے ریاستی عناصر بدستور سب سے بڑا خطرہ بنے رہے جس کے نتائج تشدد، قانونی مقدمات، اغواء، حراست اور دھمکیوں کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ بلوچستان سے اکثر اوقات صحافیوں کی حراست میں لئے جانے، جبری گمشدگی کا شکار ہونے سمیت ٹارگٹ گلنگ میں قتل کئے جانے کی واقعات سامنے آتے رہے ہیں جبکہ صحافیوں کا الزام ہے کہ بلوچستان پر رپورٹنگ کرنے کی پاداش میں ریاستی ادارے اور انکے لئے کام کرنے والے ڈیتھ اسکواڈ بلوچستان میں صحافیوں کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ صحافیوں کو خوفزدہ کرکے بلوچستان میں جاری میڈیا سنسر شپ کو برقرار رکھا جاسکے- ایمنسٹی انٹرنیشنل ساؤتھ ایشیاء نے اپنے رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ جو صحافی متاثر ہیں انکا تعلق بلوچستان سے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق بلوچ صحافیوں کو سب سے زیادہ ہراساں کیا جاتا رہا ہے جبکہ خواتین صحافی بھی متاثرین میں شامل ہیں۔ بلوچستان میں صحافیوں کے خلاف کاروائیوں کے واقعات میں رواں سال مارچ کے مہینے میں ڈھاڈر سے صحافی غلام فاروق جتوئی کے اغواء کا واقعہ شامل ہیں۔ صحافیوں کے لئے کام کرنے والی تنظیم کے مطابق بلوچستان پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی ملک اور بیرون ملک نشانہ بنتے رہے ہیں سال 2020 میں جلاء وطن بلوچ صحافی ساجد حسین کی لاش سویڈن کے اپسلاء ندی سے برآمد ہوئی تھی ساجد حسین واقعہ پر بلوچ تنظیموں کا مؤقف ہے کہ انہیں پاکستان نے قتل کیا ہے۔ سال 2020 -21 کے واقعات میں بلوچستان کے شہر چمن سے چمن پریس کلب کے سابق صدر و سماء نیوز کے سینئر رپورٹر سعید علی اچکزئی اور خیبر نیوز کے عبدالمتین اچکزئی کی نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغواء اور بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مقامی صحافی واحد رئیسانی کی قتل کا واقعہ شامل ہیں۔ ایمنسٹی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کو آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کے تحفظ کے لیے مزید کچھ کرنا چاہیے خاص طور پر خواتین اور بلوچ صحافیوں کے لیے جو سب سے زیادہ انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post