شیر زال گنج خاتون ساجدی کون ہیں ؟ تحریر سمیر جیئند بلوچ

شیر زال گنج خاتون کون ہیں ؟ تحریر سمیر جیئند بلوچ
آواران بلوچستان کی بیٹی، گنج خاتون ساجدی ،یہ شیرزال آواران پیراندر کے عظیم قبائلی سماجی شخصیت شہید دلبود ساجدی کی بیوہ ، شہید نجیب ساجدی اور سابقہ بینک کیشیئر بلوچی زبان کے انقلابی شاعر لیاقت سا جدی کی والدہ اور بلوچ قوم کی بہادر ماں ہیں ۔ جھنوں نے پچھلے ایک دہائی سے قابض پاکستانی فورسز کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی مادروطن میں بیٹھ کر دکھ سہہ رہی ہیں ۔ یہ شیر زال بہادر ماں جوانی سے لیکر آج تک دکھوں کا سامنا دیدہ دلیری سے کرتی آرہی ہیں ۔ ا ن پر جوانی میں قیامت اس وقت مقامی سرداروں قادر بخش میروانی ،اسلم گچکی ،موسی ساجدی ،موجودہ کھٹ پتلی وزیر اعلی بلوچستا ن قدوس بزنجو کے باپ مجید بزنجو اور علاقائی میراور ٹکریوں نے ڈھائی ،جب انھوں نے مقامی ڈاکو لٹیرے شیر خان میروانی نامی کاسہ لیس کے زریعے انکے شوہر اور جوان سال بیٹے نجیب کو 1993/94 میں شہید کروا دیا ۔
(جن کا مقصد تھاکہ پیراندر علاقہ میں واحد شخصیت ہیں جو علاقہ میں سرداروں اور انکے کاسہ لیسوں کے سامنے دیوار بنے ہوئے ہیں ۔ان کی وجہ سے وہ نہ کسی مقامی نہتئ نوجوان لڑکی کو اغوا کرسکتے ہیں نہیں نہتے لوگوں کو لوٹ سکتے ہیں ۔)مگر اس شیر زال نے شوہر کے شہادت کے باوجود ہمت نہ ہاری نہ صرف اپنے املاک اور زمینوں کی حفاظت کی بلکہ بلوچستان کے پسماندہ ترین ضلع میں رہتے ہوئےاپنی اپنے بچوں کو بھی اعلی تعلیم سے لیکر سرکاری نوکریاں دلوائیں ۔ پھر میر معتبروں نے 2010 میں انھیں کارندوں زریعے انکے گھرپر دھاوا بول کر وار کرکے انکے دیوروں کے دو نوجوان بیٹوں ظہور احمد اور کریم داد جن کی شادیو کے تقریبات کی تیاریا جاری تھیں کو شہید کروا دیا ۔ اس واقع کے بعد بھی نہ رکے انھوں نے ڈاکو شیر خان کے بیٹے قیصر میروانی کو مقامی فوج کے ڈیتھ اسکوائڈ میں بھرتی کرواکر ، شیر زال ماں اور بیٹوں کی زندگی اجیرن بنانا شروع کردیں ۔جہاں انکے مال ،املاک اور فصلات فوج کے ساتھ مل کر لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھنے کے علاوہ انکی بیٹو ں کو نوکریوں سے نکلواکر جلاوطن ہونے پرمجبور کیاگیا ۔مگر اس شیرزال نے ہمت نہ ہاری فوج اور انکے دلالوں کو دوٹوک انداز میں جواب دی کہ یہ زمین اور لوگ انکی ہیں ۔ وہ کبھی بھی اپنے ننگ ناموس پر شہید ہونے والے شہید شوہر ،شہید لخت جگر ،رشتہدا روں کے خون اور زبردستی جلاوطن کئے گئے بیٹو ں اور بیٹیوں کی زمین چھوڑ کر ان کا سودا نہیں کرسکتی ہیں ۔ لہذا پاکستانی فوج جو چاہے زور لگالے وہ ٹوٹنے والی نہیں ہیں ۔ مقامی لوگو ں کا کہناہے پچھلے دس سال سے فورسز آئے روز انکی گھر کا سفایا کرتے رہتے ہیں حتی کہ انکے گھر آنے والی پانچ کلو چینی ،دال گھی بھی پہنچتے ہی آکر فورسز زبردستی چھین کر لے جاتے ہیں ۔ دوسری طرف ان کو اتنی ازیت دیتی ہیں کہ وہ آواران بازار تک اپنی علاج کیلے نہیں جاسکتی ۔جب بھی جاتی ہیں ،چوکیوں پر ان پر تشدد کرکےانکی نقدی چھین کر انھیں گھر واپس بھیج دیتی ہیں ۔جن کا ایک کی ضد ہے یہاں سے چلی جائیں ،مگر وہ بھی اپنی بات پر اڑی ہوئی ہیں کہ وہ کیوں اپنی زمین چھوڑ دیں ؟فوج ،پاکستان، بتائیں انکے اپنی گھر میں رہنے سے فوج کو کیا فائدہ یانقصان ہے ۔؟ ان حقائق اور فوجی ظلم کی تصدیق اس وقت ہوئی جب وہ ہفتہ 23 اپریل کو علاج کی غرض سے تربت جارہی تھی ،انھیں فورسز نے کولواہ ڈھنڈار میں روک کر نقدی ،موبائل اور استعمال میں ہونے والے کپڑوں سے محروم کرتے ہوئے ان پر تشدد کرکے ایک رات کیمپ میں رکھنے بعد چھوڑ دی ،مگر ان کے تیماردار کزن بزرگ براہیم خان کو حراست میں رکھ کر لاپتہ کردیا
۔ یہ ایک ماں کی کہانی ہے نہ جانے اس غلامی میں کتنی بہادر گنج خاتون وحشی پاکستانی فوج کی ازیت آنکھوں سے خون بہاکر سہتی چلی آرہی ہیں ؟۔

Post a Comment

Previous Post Next Post