پاکستان کے شہر لاہور کی جامعہ پنجاب کے ہاسٹل سے بدھ کی صبح ایک بلوچ طالب علم کی جبری گمشدگی کے خلاف بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے وائس چانسلر کے دفتر کے سامنے احتجاج کے بعد دھرنا دے رکھا ہے۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ایک ویڈیو کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس میں بیبگر امداد نامی ایک بلوچ طالب علم کو سادہ لباس میں ملبوس چند سکیورٹی اہلکاروں ( کووں )نے تشدد کرکے اٹھا کر سفید رنگ کی ویگو گاڑی میں ڈالا اور ساتھ لے گئے۔
پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بیبگر امداد اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی کے طالب علم ہیں جو اپنے ایک کزن سے ملنے لاہور آئے تھے۔
ادھر یونیورسٹی کے ترجمان خرم شہزاد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ یونیورسٹی کے ہاسٹل سے بدھ کی صبح ایک شخص کو حساس ادارے کے افراد نے حراست میں لیا ہے۔
سی ٹی ڈی پنجاب کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ادارے نے ایسی کوئی کارروائی نہیں کی۔
بلوچ طلبہ کا کہنا ہے کہ بیبگر منگل کی رات اسلام آباد سے لاہور اپنے ایک کزن کے پاس پہنچے تھے جو پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر سات میں رہتے تھے۔
ان کے ترجمان کے مطابق ‘بیبگر کو چھٹیاں ہوئی تھیں اور ان کا ارادہ تھا کہ وہ اپنے کزن کے ساتھ مل کر عید کی چھٹیاں منانے کے لیے واپس اپنے گھر (آبائی علاقے) جائیں گے۔‘
انھوں نے بتایا کہ بیبگر کا تعلق بلوچستان کے علاقے تربت سے ہے۔ بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کے ترجمان کے مطابق صبح ساڑے سات بجے کے قریب سادہ لباس میں ملبوس چند افراد ان کے ہاسٹل آئے اور بغیر کسی قسم کے وارنٹ کے بیبگر کو اٹھا کر لے گئے۔
ترجمان کے مطابق ’بیبگر نے ان سے پوچھا کہ وہ انھیں کیوں لے جا رہے ہیں؟ تو انھوں نے بتایا کہ ان سے تفتیش کرنا ہے۔‘
‘بیبگر امداد نے ان سے کہا کہ ان کا فون بھی ان کے پاس ہے اور لیپ ٹاپ وغیرہ بھی، جو تفتیش کرنی ہے وہ وہیں پر ان سے کی جا سکتی ہے۔’
ترجمان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد بیبگر کا فون اور لیپ ٹاپ بھی لے لیا گیا اور سادہ لباس میں ملبوس افراد انھیں اپنے ساتھ لے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی کی سیکیورٹی ٹیم کے انچارج بھی سادہ لباس میں ملبوس افراد کے ہمراہ تھے۔
ادھر پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان خرم شہزاد کے مطابق یہ شخص منگل کی رات کو ہاسٹل پہنچا تھا جہاں اس کا رشتہ دار رہتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہاسٹل کے قواعد کے مطابق وہاں رہنے والے تین دن کے لیے کسی مہمان کو ساتھ رکھنا چاہیں تو رکھ سکتے تھے جس کے لیے انھیں فیس ادا کرنا پڑتی تھی۔
ان کے مطابق مذکورہ شخص رات کو جب ہاسٹل پہنچا تو رجسٹر میں اس کا اندراج کیا گیا تھا جہاں اس نے اپنا غلط نام درج کروایا تھا۔
خرم شہزاد نے بی بی سی کو بتایا کہ بدھ کی صبح حساس ادارے کے اہلکاروں نے یونیورسٹی کے سکیورٹی انچارج سے رابطہ کر کے بتایا کہ انھوں نے کسی مشتبہ شخص کو ہاسٹل سے گرفتار کرنا ہے۔
ترجمان کے مطابق یونیورسٹی کا سکیورٹی عملہ اس وقت موقع پر موجود تھا۔
جامعہ لاہور اور لاہور شہر میں بلوچ طلبہ کی نمائندہ تنظیموں کی جانب سے واقع کے خلاف ایک پُرامن واک کیا گیا۔ اس کے بعد بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کی طرف سے دی گئی احتجاج کی کال پر طلبہ نے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے دفتر سامنے احتجاج کیا اور دھرنا دیا۔
انھوں نے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر بیبگر امداد کو رہا کرنے کے مطالبات درج تھے۔ بدھ کی رات تک احتجاج کرنے والے طلبہ وائس چانسلر کے دفتر کے سامنے دھرنے دیے ہوئے موجود تھے۔
اس مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف سوشل میڈیا پر بھی احتجاج جاری ہے۔ ٹوئر پر کئی صارفین نے واقعے کی مذمت کی ہے۔
جیسے انسانی حقوق کی سابق وزیر شیریں مزاری نے لکھا ہے کہ ’جامعہ کراچی میں چینی اساتذہ کے خلاف قابل مذمت دہشت گردانہ حملے کے بعد ہم ایجنسیوں کی جانب سے وہی افسوسناک حربے استعمال کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ (یعنی) بلوچ طلبہ کو اٹھانا۔‘
انھوں نے واقعے کی ویڈیو (جس کی آزادانہ تصدیق نہیں کی جاسکی) شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ اس میں پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے بیبگر امداد کو حراست میں لیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ’یہ اجتماعی سزا کا پرانا نوآبادیاتی حربہ ہے