تربت : ایف سی انٹیلیجنس برائے راست اغواء برائے تاوان میں ملوث ہے – رپورٹ

تربت و نواحی علاقوں میں ایک مرتبہ پھر اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری شروع ہوگئی۔ مسلح مافیا کی طرف سے رواں مہینے اغواء برائے تاوان کے دو کیس ریکارڈ ہوئے ہیں جن میں براہ راست ایف سی و انٹیلی جنس تربت کے سربراہ کا نام آیا۔ اطلاعات کے مطابق چند روز قبل تربت سے مسلح افراد، جو بغیر نمبر پلیٹ گاڑی میں سوار تھے دن دیہاڑے تربت سے ایک چھوٹے پیمانے کے کاروباری شخصیت کو اغواء کرلیا اس کے دو دن بعد خاندان کو ذوالخان نامی شخص نے کال پر بیس لاکھ روپے تاوان طلب کیا، ذوالخان سامی، شھرک اور شاپک کے علاقوں میں کافی عرصے سے مسلح ہے اور ان کے پاس کچھ مسلح ساتھی بھی ہیں۔ مذکورہ واقعہ کے بعد اغواء کنندہ شخص کے خاندان نے دو لاکھ روپے ابتدائی طور پر اغواء کاروں کو ادا کی اور دس لاکھ روپے پر صلح کرکے باقی آٹھ لاکھ کی ادائیگی کے لیے کچھ دن کی مہلت مانگی۔ اس دوران خاندان نے پولیس کو اطلاع دی اور ذوالخان سے بذریعہ وٹس ایپ رابطہ برقرار رکھا اور ان کے فون ریکارڈ کرلیے۔ ریکارڈ شدہ فون کال پر ذوالخان ایف سی و انٹیلی جنس کے سربراہ میجر عمر کا نام لے کر خاندان کو ڈرا رہا ہے کہ وہ تاوان کی باقی رقوم کی ادائیگی جتنی جلدی ممکن ہو ادا کریں۔ پولیس کے ایک سینئر اہلکار نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ ذوالخان کے وائس ریکارڈ پولیس کے پاس محفوظ ہیں اور ان میں براہ راست ایف سی اور انٹیلی جنس کے سربراہ میجر عمر ملوث ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس نے مغوی کے خاندان کو رقم کی ادائیگی کے لیے ذوالخان کو فون کرکے ایک مقررہ جگہ پر آنے اور رقم لیجانے کا کہا اور منصوبہ بندی کے مطابق جب ملزم وہاں پہنچا تو پولیس نے اس کو گرفتار کرلیا۔ جبکہ گرفتار ملزم نے دوران تفتیش اپنے نیٹ ورک کی مکمل معلومات پولیس کو فراہم کی جس کے سربراہ بظاہر ذوالخان ہیں لیکن اس گینگ کو براہ راست میجر عمر لیڈ کررہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق گرفتار ملزم ابھی تک پولیس کی حراست میں ہے جسے چھڑانے کے لئے میجر عمر کی طرف سے کافی دباؤ ڈالا گیا لیکن آل پارٹیز کیچ کو اس واقعہ کی خبر پہنچی اور ایک وفد نے ضلعی پولیس آفیسر سے ملاقات کی اور انہیں گرفتار ملزم کی نشاندہی پر اس گینگ کے خلاف کارروائی کی درخواست کی۔ دی بلوچستان پوسٹ کو مصدقہ ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ تحصیل تمپ کے علاقے بالیچہ میں دو ہفتے قبل میجر عمر (جو ایف سی کی انٹیلی جنس کا سربراہ ہے) نے ایک مقامی منشیات فروش کو اپنے آفس بلا کر ان سے 25 لاکھ روپے تاوان طلب کیا، انکار پر میجر عمر نے اسے پورے دن اپنے آفس میں آنکھوں پر پٹی باندھ کر یرغمال بنایا اور اس پر تشدد بھی کیا گیا، شام کو مذکورہ منشیات فروش کے ایک ساتھی کی ضمانت پر اسے رقم ادائیگی کی شرط پر چھوڑ دیا گیا۔ خیال رہے کہ پنجگور اور نوشکی میں ایف سی ہیڈکوارٹرز پر حملوں کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو بار تربت کا دورہ کیا، ایک مرتبہ اس نے یونیورسٹی میں عوامی جرگہ کی میزبانی کی جہاں ان پر کھل کر تنقید کی گئی اور ایف سی کے کردار کو ہدف تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جنرل باجوہ نے لوگوں کو ایف سی کے مظالم اور انٹیلی جنس اداروں کے بنائے گئے اسکواڈز سے محفوظ اور ان تمام اسکواڈز کو ختم کرنے کی یقین دلائی لیکن اس کے بعد اغوا برائے تاوان کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی پاکستان فوج کے حاضر سروس آفیسران پر اغوائے برائے تاوان میں ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں۔اس سے قبل بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے دالبندین سے 30 اگست 2016 کو فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے حفیظ اللہ محمد حسنی کے لواحقین سے ان کے رہائی کے بدلے 68 لاکھ روپے دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ عسکری ذرائع کے مطابق مذکورہ میجر نے 2016 میں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایک بلوچ نوجوان کو دالبندین سے اغوا کیا اور نوجوان کے والدین سے 68 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔ مجبور والدین نے بچے کی بازیابی کے لیے رقم کا بندوبست کرکے ادائیگی بھی کر دی لیکن وہ پھر بھی گھر نہ پہنچ سکا۔ پاکستان فوج کا کہنا ہے کہ ملٹری کورٹ کے ایک حاضر سروس میجر کو اپنے اختیارات کے غلط استعمال کے جرم میں ملازمت سے برخاست کرتے ہوئے عمرقید کی سزا سنائی گئی تھی، جس کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے توثیق کی۔ بعدازاں مذکورہ شخص کی لاش چار سال بعد علاقے میں ملی، مذکورہ نوجوان کو قتل کرنے کے بعد ویرانے میں دفن کردیا گیا تھا جو بارش کے باعث ظاہر ہوگئی تھی۔ اسی نوعیت کا ایک واقعہ کوئٹہ سے لاپتہ ظفر بلوچ کے ساتھ پیش آیا جنہیں 2015 کو فورسز نے ان کے گھر سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا۔ ان کے لواحقین کے مطابق ظفر بلوچ ولد حاجی غلام محمد بلوچ کو 24 جولائی 2015 کو رات کے تین بجے گھر سے سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نےحراست میں لیکر اپنے ساتھ لے گئے جبکہ فورسز کے ہمراہ سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد موجود تھے۔ ظفر بلوچ کے لواحقین کے مطابق آئی ایس آئی اور ایم آئی کے اہلکاروں نے ظفر بلوچ کی رہائی کے بدلے 35 لاکھ روپے مانگے جو انہیں فراہم کردی گئی تھی جس کے بعد بھی ان کے لواحقین نے کئی مہینوں تک ان کی بازیابی کے لیے احتجاج کیا تھا تاہم بعد میں 18 مارچ 2019 کو ظفر بلوچ کو رہا کردیا گیا۔ Previous article

Post a Comment

Previous Post Next Post