بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ 4630 ویں دن مکمل ہوگئے- پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ میں تنظیم کے چیئرمین نصراللہ بلوچ اور وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ بیٹھے رہیں-
آج لواحقین سے اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او پجار کے چیئرمین زبیر بلوچ، طارق بلوچ اور دیگر شامل تھے –
اس موقع پر وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ زرینہ مری سمیت سینکڑوں خواتین ریاستی ٹارچر سیل میں اذیتیں سہہ رہے ہیں جو روز مرتے اور زندہ ہوتے ہیں، سینکڑوں جبری لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی گئی ہیں، پاکستان میں شہریوں کو اٹھا کر غائب کرنے کی واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، بلوچستان میں یہ شرح دوسرے صوبوں کی نسبت کافی زیادہ ہے، روزانہ اوسطاً دو سے تین لوگ جبری طور پر اٹھا کر لاپتہ کر دیے جاتے ہیں-
انہوں نے کہا کہ پولیس ان واقعات کی رپورٹنگ کرنے اور ایف آئی آر کرنے سے کتراتی ہے، جب لاپتہ افراد کے لواحقین عدالتوں یا کمیشن کا رخ کرتے ہیں تو وہاں بھی انہیں ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے، اور وہ لا علمی کا مظاہرہ کرتے ہیں ان میں ریاستی ایجنسیاں ملوث ہیں حالانکہ لاپتہ افراد انہی سے برآمد ہوتے ہیں، حالیہ دنوں ایک طالب علم حفیظ بلوچ کو انکے طلباء کے سامنے انہی لوگوں نے جبری اٹھا کر لاپتہ کر دیا اور اب اس پہ جھوٹے الزامات کی ایف آئی آر کاٹ کر اسے پولیس کے حوالے کیا ہے-
انہوں نے مزید کہا کہ عدالتیں بلوچوں کو انصاف دلانے میں مکمل ناکام رہے ہیں، ریاستی ٹارچر سیل سے آزاد کچھ خوش قسمت لوگوں نے باہر آ کر تشدد کی دل دہلانے والے واقعات کا ذکر کیا ہے اور وہ عالمی اداروں اور ان کے ایونٹس پہ بھی پیش ہو چکے ہیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان شواہد کی بنیاد پر پاکستانی ریاست اور انکے اداروں سے عالمی انصاف کے ادارے جواب طلبی کریں –
Previous