اقوام متحدہ بلوچ طلبا و طالبات کی تعلیم کیلئے متبادل بندوبست کرے، میرعبدالنبی بنگلزئی

بلوچ قوم پرست رہنما میر عبدالنبی بنگلزئی نے اپنے ایک بیان میں جبری گمشدگیوں میں تیزی سے اضافہ پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فورسز بلوچوں کو زیر کرنے کیلئے ہر قسم کے حربے آزماتے رہے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے جبری گمشدگی کو بڑے پیمانے پر ایک آلہ جبر کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس میں تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگی میں ایک حکمت عملی کے تحت بلوچ طالب علم اولین ٹارگٹ ہیں۔ پچھلے ایک مہینے میں بلوچستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں درجنوں بلوچ طلبا کو حراست کے بعد جبری لاپتہ کیا ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ایم فل فزکس کے طالب علم حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی ہو یا اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے طالب علم دلیپ بلوچ کی جبری گمشدگی، اسی کا تسلسل ہے۔ گزشتہ برس کراچی یونیورسٹی کے ہونہار طالب علم حیات بلوچ کو فرنٹئیر کور نے ان کے والدین کے سامنے گولیوں سے بھون کر شہید کر دیا۔ اسی طرح 2 فروری کو پنجگور میں احتشام بلوچ نامی ایک اور ہونہار طالبعلم کو فوجی اہلکاروں نے سر عام اٹھا کر شہید کردیا۔ میر عبدالنبی بنگلزئی نے کہا کہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن پاکستانی قبضہ کے تحت بلوچ قوم کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کو فوجی کیمپوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔ بلوچ والدین محنت مشقت کرکے اپنے بچوں کو حصول علم کے لئے بھیجتے ہیں تو وہاں وہ فوج کی موجودگی اور بہیمانہ رویہ کی وجہ سے ذہنی کوفت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھیوں کی تعلیمی کیمپس سے اغوا کو دیکھ کر مسلسل ذہنی دباؤ میں رہتے ہیں۔ اسی طرح وہ خود بھی ایک ایک کر کے اسی بربریت کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اب تک ہزاروں طلباء کو جبری لاپتہ کردیا گیا ہے۔ بلوچ رہنما نے کہا کہ بلوچستان کی اس ماحول کو دیکھ کر کچھ طلبا پنجاب کا رخ کرنے لگے تو پہلے وہاں انہیں مقامی طلبا تنظیموں کے ذریعے تنگ کیا جانے لگا تاکہ وہ ڈر کے مارے تعلیم ادھوری چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ لیکن اب پنجاب میں بھی بلوچ طلبا کی جبری گمشدگی کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے۔ بی بی سی اردو کی ایک حالیہ سروے رپورٹ میں واضح ہے کہ وہاں بلوچ اور پشتون طلبا کو پاکستانی خفیہ ایجنسیاں اُٹھاکر پوچھ گچھ کرکے دباؤ میں رکھتے ہیں۔ حالیہ دنوں بلوچستان کے کئی طلباء کو پنجاب سے جبری لاپتہ کیا گیا ہے۔ بلوچ رہنما نے کہا ہے کہ پاکستان کے پنجابی حکمران مقبوضہ بلوچستان پر اپنے استعماری قبضہ کو طول دینے کے لیے بلوچوں کو علم و شعور کی روشنی سے دور جہالت اور محکومیت کے اندھیروں میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اس لئے اقوام متحدہ سے ایپل ہیکہ جب تک بلوچستان آزاد نہیں ہوتا تب تک بلوچ طلباء و طالبات کی تعلیم کو ممکن بنانے کے لئے کوئی متبادل بندوبست کرے تاکہ وہ ایک پرسکون اور محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کرسکیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post