جنگ ہمیشہ اپنا رنگ بدلتا ہے، جنگ ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جن کے حوصلے بلند ہوں، جن کے من میں ڈر نام کی کوئی چیز ہی نہ ہو۔ جیسا کہ ہنرمند لوگ کہتے ہیں “اگر کسی کے پاس طاقت ہو اور ہمت نا ہو تو وہ طاقت کسی کام کی نہیں ہوتی”۔ تحریک ہمیشہ انہیں یاد کرتا ہے جو ،اس دنیا کے خوشیوں کو ٹکرا کر کچھ الگ کرنا چاہتے ہیں تحریک دو لوگوں کو ظاہر کرتی ہے ایک بُرے لوگوں کی برائیوں کو اور دوسرے اچھے لوگوں کی خوبیوں کو۔
جس طرح آج تحریک سینے پر گولی کانے والے سرمچار کو یاد کرتا ہے اسی طرح پاکستان اور ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کے اعمال کو بھی یاد کرتا ہے صرف ان دونون میں فرق یہ ہے کہ ایک سرمچار کو ان کی بہادری پرجوش اور کبھی نا جُھکنے والے دلیر سپاہی کے نظریہ سے یاد کرتا ہے وہیں ایک ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے کو ایک قاتل، ایک بزدل کی طرح یاد کرتا ہے
اگر ہم بلوچستان کی تحریک کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو یہاں مختلف حکمرانوں نے آکر اپنا قبضہ جمائے ہیں لیکن یہ تحریک گواہ ہے کہ بلوچستان کے سپوتون نے کبھی اپنا سر جھکا کر ہاتھ پر ہاتھ درے نہیں بیٹے ہیں ہر وقت اپنے قوم کی ہر تکلیف پر ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ریے ہیں
اسی طرح آج کے اس اندھیری شام میں کچھ چراغوں نے اپنا لہو بہا کر مشعل جلائے ہیں ان ہی چراغوں میں سے کچھ چراغوں نے خود کو فنا کر کے چمکتے ہوۓ ستاروں کی طرح ہماری زندگی میں روشنی بھرے ہیں
آخر آپ لوگ سوچ رہے ہیں کہ میں کس کی بات کررہا ہوں میں مشکے میہی میں جنم لینے والے چار جانساروں کے بارے میں لکھ رہا ہوں میں شہید مسلم، شہید سکندر، شہید منصور اور شہید سعدللہ بلوچ کے بارے میں لکھ رہا ہوں یہ چاروں نوجوانوں اٹھارہ ستمبر دوہزار بیس کو شہید ہوئے
شہید مسلم اپنے دوستوں کے ساتھ ہنستے مسکراتے ہوئے بنا خوف ہر روز دشمن کے ہر منصوبے کو ناکام کرہا تھا اور دشمن وہاں ان چاروں کو تحریک سے مٹانے کے طریقے ڈونڈھ رہا تھا اور شاید انہیں یہ پتا نہیں تھا کہ میں تحریک آزادی سے چار لوگوں کو مٹانے کے لئے نہیں یہاں تحریک میں چار ستارے اور بڑھانے آیا ہوں۔ دشمن وہاں سے یہ سوچ کر آیا تھا کہ یہان چار لوگ ہیں ہم انہیں مار کر پھر سے چلے جائیں گے شاید انہیں یہ پتا نہیں تھا ان مادر وطن کے عاشقوں نے پہلے ہی اپنے سروں پر کفن باندھ کر دشمن پر قہر بننے کے لئے تیار بیھٹے ہیں
جب صبح نو بجے زمینی فوج اپنی فضائی کمک کے ساتھ پہنچتے ہیں تو وہاں جنگ شروع ہوجاتی ہے گولیوں کی آواز سے پورے مشکے کے پہاڑ گونج اٹھتے ہے پورے مشکے میں یہ بات سرعام ہوجاتا ہے کہ پاک فوج اور سرمچاروں کے درمیان جھڑپ شروع ہوگیا ہے وہاں سب لاشوں کے انتظار میں تھے یہان یہ اپنے سینے میں پھر بلوچ قوم کے دکھ درد باندھ کر اپنے آخری سانس اور آخری گولی کے انتظار میں تھے وہاں دشمن انہیں مارنے کی ہر ممکن کوشش کررہا تھا اور وہ دشمن کی ہر کوشش کو ناکام کر رہے تھے وہ انہیں مٹانے کے لئے آیا تھا یہاں یہ کوہ سلیمان کی طرح دشمن کے سامنے کھڑے تھے شاید انہیں یہ بات پہلے ہی معلوم تھا کہ دشمن ایک انسان کو مٹاسکتا ہے ایک فکر اور سوچ کو نہیں وہ ایک سوچ بننے کے لئے بیھٹے تھے اور آخر کار شام ساڑھے چار بجے ان مادر وطن کے فرزندوں کی گولیان ختم ہوجاتی ہیں اور وہ آخری گولی کے فلسفہ کو ایک بار پھر سے دہراتے ہیں ایک بار پھر سے مشکے کو تیس جون جیسے قیامت خیز دن کی یاد دلا کر خود اس دنیا میں امر ہوجاتے ہیں ایک بار پھر سے یہ دکھاتے ہیں کہ بلوچ قوم نہ لاوارث تھا، نہ ہے، نا رہیگا۔