اپنے بزرگ اور دوستوں سے کچھ تاریخی واقعات سننے کے بعد اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظوں میں ایک چھوٹی سی تحریر۔حذیفہ نور ۔
نورا مینگل، شہید میرخان محمد گرگناڑی ، غازی سلیمان گرگناڑی برصغیر میں انگریز سامراج کے خلاف بلوچ گوریلوں کی لڑائیوں کی بہت سی داستانیں ہیں، جن میں جھالاوان کے بلوچ گوریلے نورا مینگل ،خان محمد گرگناڑی ، غازی سلیمان گرگناڑی کی داستان بھی ایک اہم داستان ہے۔8 مارچ 1916ء کو ،سردار شہبازخان گرگناڑی، سردار نورالدین مینگل، نورا مینگل و سردار رسول بخش ساسولی اپنے دیگر کئی ساتھیوں کے ہمراہ زیدی میں پیر کمال شاہ کے مزار پر جمع ہوکر ایک عہدنامہ تحریر کر کے حلف اُٹھا ئے کہ جب تک دم میں دم ہے قبضہ گیری کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔ سردار شہباز خان گرگناڑی اورسردار نورالدین مینگل اسلحہ وغیرہ حاصل کرنے کیلئے ایرانی بلوچستان چلے گئیں جبکہ غازی رسول بخش ساسولی ، غازی نورا مینگل ،میر خان محمد گرگناڑی، غازی سلیمان گرگناڑی ، گہرام مینگل ، لالو گرگناڑی اور دیگر ساتھی مزاحمت جاری رکھے۔ لاڑکانہ ، دادو اور شکار پور کے علاقہ میں انگریز فوج کے خلاف چھاپہ مار کاروائیاں کرتے رہے جس کی وجہ سے علاقہ میں بے چینی بڑھتی گئی۔12 اپریل 1916ء کو نورا مینگل ، خان محمد گرگناڑی ، آلو گرگناڑی (شاید کہ اس کانام اللہ بخش گرگناڑی تھا) اور ان کے ساتھیوں نے لاکھوریان کے قریب ڈاک کو چھین لیا۔
سوراب کے قلعہ پر قبضہ کرنے والے تھے کہ حکومتی اہلکاروں کو ایک بڑی مدد ملی جس کی وجہ سے قلعہ قبضہ نہ ہوسکا۔ اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے ولی محمد کے بیٹے میر رحیم خان مینگل و میر علم خان مینگل کو خضدار بلوایا، انہیں نورا مینگل اور میر خان محمد گرگناڑی ، غازی سلیمان گرگناڑی اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کاحکم دیامگر انہوں نے نورا مینگل کو گرفتار کرنے سے معذوری کا اظہار کیا ۔ نورا مینگل دہشت اور میر خان محمد گرگناڑی ، غازی سلیمان گرگناڑی خوف کی علامت بن چکے تھے۔ انگریز مجبور ہو کر نورا مینگل اور میر خان محمد گرگناڑی ، غازی سلیمان گرگناڑی اس کے ساتھیوں کے خلاف خود جنگ لڑنے کے لئے میدان میں اتر آیا۔ایک لشکر میر رسول بخش ساسولی کی گرفتاری کیلئے زیدی روانہ ہوا۔ نورا مینگل اس وقت اپنے اکیس 21 ساتھیوں کے ہمراہ مشہور پہاڑی سلسلہ کوہ پھب میں موجود تھا۔اچانک اُنہیں معلوم ہوا کہ انگریز لشکر میر رسول بخش ساسولی کی گرفتاری کیلئے زیدی روانہ ہوا ہے تو وہ راتوں رات میر رسول بخش ساسولی کی مدد کیلئے زیدی روانہ ہوئے، ابھی وہ گاج کے علاقے پہنچے تھے کہ اُنہیں معلوم ہوا کہ فوج نے زیدی نہیں بلکہ وڈھ کا رُخ کیا ہوا ہے۔
اُ نہوں نے اسے ایک جنگی چال سمجھا ۔ فوراً دبے پائوں واپس خود کو وڈھ پہنچادیئے ۔برسات کا موسم تھا آفتاب غروب ہوچکا تھا، وقفے وقفے سے بارش برس رہی تھی۔مگر یہ شیر جواں 50میل کا فاصلہ دوبارہ طے کرکے صبح صادق کو برستی بارش میں واپس کوہ پھب پہنچ گئیں۔کپتان ہینڈرسن رات کے اندھیرے میں گہرام مینگل (جو کہ نورا مینگل کے چچا زاد بھائی تھے) کے گائوں اور گھر کو گھیرے میں لے چکے تھے۔ گہرام ،لالو گرگناڑی اور حسین خان اور ان کے ساتھی اپنے اپنے گھروں میں موجود تھے۔ صبح ہوئی تو وہ خود کو انگریز فوج کی گھیرے میں پائے۔
انگریز نے لیویز سپاہیوں کے ذریعے انہیں پیغام بھیجا کہ تلوار پھینک کر سلام کرو اور ہمارے ساتھ لڑائی کرنے سے باز آجائو۔ تو اُنہوں نے جوش شہادت سے سر شار ہوکر تلوار پھینکنے کی بجائے ننگی تلوار لیکر میدان میں نکلے۔گہرام خان مینگل جب تلوار لیکر انگریز فوج کی طرف حملہ آور ہوا تو حسین خان گمشادزئی نے اُسے پیچھے سے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر روکے رکھا اور کہا کہ آج دیکھنا کہ آپ سے پہلے میرے بھائی اور بیٹے کس طرح لڑکر جام شہادت نوش کرتے ہیں اور ہوا بھی اسی طرح حسین خان گمشادزئی کے بھائی اور بیٹے ایک ایک کر کے انگریز سے لڑکر جام شہادت نوش کر گئے۔
آخر میں حسین خان گمشادزئی گہرام مینگل کو پیچھے پھینک کر خود لڑنے کےلئے آگے بڑکر کفار پر حملہ آور ہوۓ اور شہادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے۔اب گہرام مینگل کی باری تھی۔ گہرام مینگل ننگی تلوار لیکر انگریز کمانڈر پر حملہ آور ہورہا تھا تو انگریز کمانڈر کے ہاتھ میں ایک پستول تھی اس پستول سے وہ گہرام مینگل کو سات گولیاں مار چکا تھاجوکہ اس کے پیٹ میں لگے تھے جس کی وجہ سے اس کی انتڑیاں نکل کر باہر آچکے تھے اور دشمن پر حملہ کرنے میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ انہیں اپنے ازار بند (یعنی ناڑے) کے ساتھ باندھ کر دشمن پر حملہ آور ہوئے اور آٹھویں گولی سے پہلے اپنے مدمقابل کا سر قلم کرکے شہادت جیسے عظیم درجے پر فائز ہوکر ہمیشہ کے لئے امر ہوئے۔اس معرکہ میں گہرام مینگل اور حسین خان گمشادزئی کے علاوہ کل 33 جوان جام شہادت نوش کر گئے ۔
جب گائوں کے تمام لوگ ( یعنی کہ صرف مرد) شہید ہوئے تو فوج نے پورے گائوں کو لوٹ کر شہداء کو ایک بھوسے کی گودام (کھوم) میں پھینک کر اوپر مٹی ڈال دی۔
انگریز فوج گہرام مینگل اور اس کے ساتھیوں کو شہید کرکے ان کے گائوں اور گھروں کو تاراج کرنے کے بعد پہاڑوں کی دامن میں واقع گائوں کارُخ کردیا۔اوروہاں پر بھی لوٹ مار کر کے واپس وڈھ کی جانب جا رہے تھے کہ نورا مینگل ان کے راستے میں آکر ان سے اپنے نہتے شہداء کا وہ بدلہ لیا کہ فرنگی انگشت بدنداں ہوئی اور تاریخ میں ایسا بدلہ شاید کسی نے لی ہو ۔ نورا مینگل میر خان محمد گرگناڑی ، غازی سلیمان گرگناڑی راستے میں ایک پہاڑ کی دامن میں (7) ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر فوج کے آنے کا انتظار کر رہے تھے جبکہ باقی چودہ (14) ساتھیوں کو دیگر چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کی طرف بھیج دیئے۔ رائفل صرف نورا مینگل اور میر خان محمد گرگناڑی کے پاس تھے باقی ساتھیوں کے پاس مقامی روائیتی ڈھاڈری بندوق (رُغدار)تھے۔ ان میں سے پانچ ساتھیوں کے پاس صرف تلواریں تھیں۔
نورا مینگل اور میرخان محمد گرگناڑی نے فوج پر فائرنگ شروع کردی فوجیوں نے جوں ہی فائرنگ کی آواز سنی تو فوراًزمین پر لیٹ گئے ۔ وہاں ایک خشک ندی اور ساتھ میں پر پُک کے درخت بھی موجود تھے ان میں وہ چھپ گئے۔ نورا مینگل کے پانچ ساتھی جو صرف تلواروں سے لیس تھے جوش میں آکر تلواریں ننگی کر کے ان پر حملہ آور ہوئے اُنہیں دیکھ کر باقی چودہ ساتھی جن کے رُغدار ناکام ہوئے تھے وہ بھی اپنی اپنی تلواریں میان سے نکال کر انگریزوں پر حملہ آور ہوئے ابھی وہ دشمن تک نہیں پہنچے تھے کہ دشمن کے گولیوں کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کر گئے، جو اُن کی آخری خواہش تھی۔
انہی میں سے ایک مجاہد اپنے تلوار کے ساتھ قریب تھا کہ ہینڈرسن کا سر قلم کرتا کہ ہینڈرسن یہ دیکھ کر اُٹھ بیٹھا اور پستول نکال کر اُسے بھی شہادت کی راہ دکھائی۔ اب صرف نورا مینگل اور میر خان محمد گرگناڑی رہ گئے تھے۔ اسی دوران ہینڈرسن کا سینہ نورا مینگل کے سامنے تھا کہ موقع پاکر نورا مینگل نے اس کے سینے میں گولی پیوست کر کے جہنم واصل کردیا۔کپتان پار گیڈ گھٹنوں کے بل رینگ کر ہنڈر سن کے لاش تک پہنچ گیا اور پائوں سے پکڑ کر لے جانے والا تھا کہ نورا مینگل کی دوسری گولی پارگیڈ کی پیشانی میں پیوست ہو کر اسے بھی جہنم واصل کردیا۔
یہ دیکھ کر لیفٹیننٹ کلینیکل اُٹھا تو غازی سلیمان گرگناڑی کی تیسری گولی نے اُس کی ٹوپی اُڑادی مگر وہ بد بخت بچ نکلا۔ آفیسران کے مردار ہونے کے بعد باقی فوج میں بھگدڑ مچ گئی ان کی ترتیب ٹوٹ گئی، ہر کوئی جس طرف منہ تھا بھاگنے لگے جس سے نورا مینگل اور میر خان محمد گرگناڑی کو بہترین موقع ملا اور اُنہوں نے ایسا تابڑ توڑ حملہ کیا کہ ان کی ہر گولی سے ایک سپاہی گررہا تھا یعنی ہر گولی سے ایک نہ ایک سپاہی کو جہنم واصل کررہے تھے۔ زمین پر خون کی ندیاں بہنے لگیں۔ حملے کی دوران رسالہ کا جمعدار سب سے آگے تھا میر خان محمد گرگناڑی کی گولی نے اس کا کام تمام کردیا۔ اس کے پیچھے دوسرا سوار آرہا تھا اس کا کام نورا مینگل کی گولی نے تمام کردیا۔ یہیں سے رسالہ دو حصوں میں تقسیم ہوا اور ان سے گزرتا ہوا دور ہوگیا اور تیزی سے ان سے اوجھل ہوگیا۔اسی دوران کرنل ڈیوڈ (ڈیہو) وہیر میں آچکا تھا لیفٹیننٹ کلینیکل نے اُسے دودکی معرکے کی داستان سنائی کہ اس جنگ میں دو (2) کپتانوں کے علاوہ رسالہ جمعدار اور کئی سپائی مارے گئے ہیں (اندازاً 100 سے زائد سپائی مارے گئے تھے ۔کیونکہ میر خان محمد گرگناڑی ، کے بقول جو بعد میں انہوں نے لوگوں کو بتایاتھا کہ میں نے 90 گولیاں برسائے تھے جن میں سے صرف 2 یا 3 گھوڑوں اور خچروں کو لگے باقی انگریز سپاہیوں کے جسموں میں پیوست ہوئے) جبکہ نورا مینگل کی گولیوں نے الگ کامیابی سمیٹا تھا۔
لیفٹیننٹ کلینیکل نے یہ بھی کہا کہ نورا مینگل کے 33 ساتھی بھی مارے گئے ہیں، جو سارے کے سارے نہتے تھے جن کے پاس صرف تلواریں تھیں۔اگر یہ سارے نورا مینگل کی طرح پُر سلاح ہوتے تو فوج کا ایک بھی سپاہی زندہ بچ کر واپس نہیں آسکتا۔کرنل ڈیہو یہ سن کر انتہائی رنجیدہ ہوا اور آگ بگولہ ہو کر سیدھا وڈھ پہنچ گیا ۔یہاں ولی محمد مینگل ، جمعہ خان شاہیزئی اور دیگر معتبرین کو بلوایا اوراُنہیں گرفتار کیا (مگر کچھ عرصہ بعد یقین دہانیوں کے بعد اُنہیں رہا کر دیا گیا) اب کرنل ڈیہو خود نورا مینگل کی گرفتاری کیلئے نکل گیا۔ وڈھ ، مولہ، گاج کولاچی، سارونہ، خضدار، نال ، گریشہ، مشکے وغیرہ ہر جگہ ڈھونڈتا رہا مگر نورا۔ نورا ہی تھا کہ ہاتھ نہیں آرہاتھا۔ نورا مینگل کی یہ خاصیت تھی کہ وہ دراز قد انتہائی چست ، پیدل جانے میں انتہائی ماہر و تیز،الٹے ہاتھ کا انتہائی کامیاب نشانہ باز (ٹِک تیر )جنگ کے دوران طنز و مزاح اور عام حالت میں انتہائی خاموش طبع انسان تھے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر جنگ کے دوران نظروں سے اوجھل ہوا کرتا تھا۔
انگریز سرکار نے اپنے بھر کوشش وطاقت کا ذور لگایا مگر نورا مینگل کو گرفتار نہ کر سکا۔ آخر میں جب بے سر و سامانی کی حالت ہوئی، ساتھی ایک ایک ہو کر گرفتار ہو گئے پھر بھی نورا مینگل ہتھیار پھینک کر سلام کرنے کو اسلامی روایات اور بلوچی روایات کے بر خلاف سمجھا اور ہتھیار نہیں پھینکا۔ جب پھب پہاڑ میں تھا تو بے سر و سامانی اور بندوق زیادہ استعمال ہونے سے خراب ہوگیا تھا تو یہ سوچ کر کہ کوئی وفادار ساتھی ملے جو اسے اسکا بندوق (رائفل) ٹھیک کر کے دے۔ کافی سوچنے کے بعد اس نے خاران کے نواب حبیب اللہ نوشیروانی کا انتخاب کیا کیونکہ نواب حبیب اللہ کے والد ان کے بچپن ہی میں مارے گئے تھے اور ان کا حکمرانی بھی چھینا گیا تھا ، وہ یتیمی کی حالت میں جھالاوان آیا تھا اور وہاں پناہ حاصل کی تھی۔ وہاں کے بلوچوں نے اُسے نہ صرف پناہ دی تھی بلکہ اس کی مالی مددکرکے اس کی حکمرانی بھی واپس دلا دی تھی۔ نورا مینگل خاران پہنچنے میں کامیاب تو ہواتھا مگر نواب حبیب الله نوشیروانی نے غداری اور نمک حرامی و بیغرتی کا مظاھرہ کرتے ھوئے نورا مینگل کی موجودگی کی خبر کوئٹہ یا نوشکی میں انگریز حکومت کو دے دی اور فوج نے رات کے اندھیرے میں نورا مینگل کو گھیر لیا۔ نورا مینگل اپنے ساتھیوں کے ساتھ گرفتار ہو کر کوئٹہ یا کراچی سے کالا پانی پہنچا دیاگیا اور کئی سال قید ہونے کے دوران ہی وفات پاگۓ ان کی جیل ہی میں وفات ہونے کا خبر ان کے ایک رہائی پانے والے ساتھی نے دی تھی ۔مگر ان کے مزار سےبلوچ قوم آج تک نابلد ہیں (بے خبر ہیں)۔
نورا مینگل نے جنگ کیوں شروع کیا تھا؟
جب مینگل قبیلے کے چیف سردار شکر خان اور اس کے بیٹے میر نور الدین مینگل کو انگریزوں نے گرفتار کر کے کوئٹہ میں قید کیا تو خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ وڈھ میں نورا مینگل جو پہلوانزئی شاخ کے سرکردہ شخص تھے اپنے ساتھیوں کے ساتھ 1910ء میں بغاوت کی اور انگریزوں کے خلاف گوریلا جنگ شروع کی۔ پہاڑوں میں پناہ لے کر انگریزوں پر حملے شروع کیے۔
نورا مینگل کون تھا؟
نورامینگل کا پورا نام نور محمد پہلوانزئی مینگل تھا۔ پہلوانزئی مینگل قبیلے کی ایک شاخ ہے۔ نورا مینگل پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی وادی پلیماس، تحصیل وڈھ، ضلع خضدار میں پیدا ہوئے۔ نورا انگریزوں کی چالیں سمجھنے اور ہتھیار چلانے کی مہارت حاصل کرنے کے لیے پہلے فوج میں شامل ہوئے تھے اور وڈھ شہر کے تھانے پر وضعدار مقرر ہوئے۔
نورا مینگل کب انتقال کرگۓ؟
نورا مینگل 30 اگست 1921ء کو انگریزوں کے حیدرآباد سندھ کے جیل میں انتقال کر گئے۔