بلوچ لاپتہ افرادو شہدا کا بھوک ہڑتال کیمپ 4589 دنوں سے جاری

کراچی میں بلوچ لاپتہ افرادو شہدا کا بھوک ہڑتال کیمپ جاری ہے، کیمپ کوٹوٹل 4589 د ن مکمل ہوگئے ہے۔ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں اوتھل سے سیاسی سماجی کارکن سلیم بلوچ محمد یوسف بلوچ اور دیگر شامل تھے۔ وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ بلوچ نسل کشی کا رنگ غالب نظر آرہا ہے یہ سلسلہ اب اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ گزشتہ بیس سالوں میں مختلف وقفوں کے بعد بلوچستان میں آج جاری مسلسل ریاستی طاقت کے استعمال میں سفاکیت درندگی کی ایسی اندوہناک مثالیں قائم کی جارہی ہے جو دور غلامی میں ڈھائے جانے والے مظالم کی یاد تازہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سفاکیت نے بالادست قوتوں جمہوریت پسندی اور ترقی کو نوآبادیاتی چہرے کو بے نقاب کر دیا۔ پاکستان دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پاسداری کا شور مچانے والے پاکستانی حکمران بلوچستان میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ گھناؤ نا مظاہرہ بد نام زمانہ پالیسی اٹھاؤ مارو اور پھینک دو پر بے دریغ عمل درآمد میں بڑا نمایاں نظر آتا ہے۔ اس درندہ صفت پالیسی کے تحت گزشتہ چند سالوں میں باون (52) ہزار سے زاہد بلوچوں کو سرکاری فورسز خفیہ اداروں اٹھا کر ریاستی حراست میں لاپتہ کر دیا ہے جن میں نوجوانوں کے علاوہ بوڑھے بچے اور خواتین بھی شامل ہیں جبکہ لاپتہ کیے جانے والوں میں کئی پورے خاندان بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان اغوا نما گرفتار کئے جانے جانے والوں کودوران تشدد ورندگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کو چن چن کر لاپتہ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا طاقت پر انحصار ریاستی پالیسی کا اس لئے نمایاں خاص رہا کہ بلوچ قوم نوآبادیاتی سیاسی ثقافتی یلغار سے مخلوب ہونے کی بجائے اپنی متوازی سیاست کے ساتھ زندہ رہی لہٰذا اُسے مٹانا نوآبادیاتی تسلط کے لئے ضروری تھا جس کے لئے بلوچ قوم کا قتل عام ناگزیر ٹھہرا کیونکہ قومی سیاست کے مراکز ریاستی ادارے نہیں بلوچ قوم دل و دماغ ہیں جن کا خاتمہ بلوچ قوم کے خاتمے سے یہی ممکن ہے اسی لئے ریاستی طاقت استعمال میں بلوچ نسل کشی کا رنگ غالب نظر آیا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post