دوڑ کے مقابلوں میں فنش لائن سے چند فٹ کے فاصلے پر کینیا کا ایتھلیٹ عبدالمطیع سب سے آگے تھا، مگر اس نے سمجھا کہ وہ دوڑ جیت چکا ہے، اس کے بالکل پیچھے اسپین کا رنر ایون فرنینڈز دوڑ رہا تھا اس نے جب دیکھا کہ مطیع غلط فہمی کی بنیاد پر رک رہا ہےرے
دوڑ کے مقابلوں میں فنش لائن سے چند فٹ کے فاصلے پر کینیا کا ایتھلیٹ عبدالمطیع سب سے آگے تھا، مگر اس نے سمجھا کہ وہ دوڑ جیت چکا ہے، اس کے بالکل پیچھے اسپین کا رنر ایون فرنینڈز دوڑ رہا تھا اس نے جب دیکھا کہ مطیع غلط فہمی کی بنیاد پر رک رہا ہے
تو اس نے اسے آواز دی کی دوڑو ابھی فنش لائن کراس نہیں ہوئی، مطیع اس کی زبان نہیں سمجھتا تھا اس لئیے اسے بالکل سمجھ نہ آئی، یہ بہترین موقع تھا کہ فرنینڈز اس سے آگے نکل کے دوڑ جیت جاتا مگر اس نے عجیب فیصلہ کیا اس نے عبدالمطیع کو دھکا دے کے فنش دی لائن سے پار کروا 👇
تماشائی اس سپورٹس مین سپرٹ پر دنگ رہ گئے، ایون فرنینڈز ہار کے بھی ہیرو بن چکا تھا
ایک صحافی نے بعد میں فرنینڈز سے پوچھا تم نے یہ کیوں کیا
فرنینڈز نے جواب دیا
“میرا خواب ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جہاں کوئی دوسرے کو اس لئیے دھکا دے تاکہ وہ جیت سکے”
صحافی نے پھر پوچھا
“مگر تم نے کینیا کے ایتھلیٹ کو کیوں جیتنے دیا”
فرنینڈز نے جواب دیا
“میں نے اسے جیتے نہیں دیا،وہ ویسے ہی جیت رہا تھا، یہ دوڑ اسی کی تھی”
صحافی نے اصرار کیا”مگر تم یہ دوڑ جیت سکتے تھے”
فرنینڈز نے اس کی طرف دیکھا اور بولا
“اس جیت کا کیا میرٹ ہوتا؟
اس میڈل کی کیا عزت ہوتی؟
میری ماں میرے بارے میں کیا سوچتی؟”
اقدار نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں، ہمیں اپنے بچوں کو کیا سکھانا چاہئے، بلاشبہ یہ کہ جیتنے کے لئے کوئی بھی ناجائز طریقہ اختیار نہیں کرنا