،
کو ئٹہ:آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین (سی بی اے) بلوچستان کے زیر اہتمام پورے ملک کے ہر شہر، ٹاؤن اور قصبے کی طرح کوئٹہ میں بھی پریس کلب کوئٹہ کے سامنے واپڈا اور پاور کمپنیوں کے ہزاروں محنت کشوں نے مہنگائی، بے روزگاری، قومی اداروں کی نجکاری، واپڈا اور پاور کمپنیوں کے مزدوروں کے جان کی حفاظت اوراپنے مسائل کے حل کیلئے مظاہرہ کیا۔ مظاہرین سے یونین کے صوبائی چیئرمین محمد رمضان اچکزئی، جوائنٹ سیکریٹری محمد یار علیزئی اور سیکریٹری نشر واشاعت سید آغا محمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج پورے پاکستان میں واپڈا اور پاور کمپنیز کے گوادر سے لاہور تک اور کراچی سے خیبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ملازمین سراپا احتجاج ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے 22 سال تک جدوجہد کے دوران مزدوراورنوجوان طبقے کو امید دلائی تھی کہ جب ان کی حکومت آئے گی تو ملک میں تبدیلی ہوگی، ریاست مدینہ کی طرز پر فیصلے کیے جائیں گے، انصاف، احتساب اور مساوات کا دور دورہ ہوگا لیکن ساڑھے تین سال کا عرصہ گزارنے کو ہے کہ اس وقت ملک میں تمام خوردنی اشیاء، دوائیاں،گیس، پانی، بجلی، کپڑے، مکان کے کرایے اور رہائشی زمینوں سمیت روزمرہ استعمال کی ہر شے 100 فیصد سے زیادہ مہنگی ہو چکی ہیں جبکہ مزدور کی کم سے کم تنخواہ 20 سے 25 ہزار روپے تک مقرر ہے اور سرمایہ دار مالکان کم سے کم مقررہ تنخواہ کے بجائے 08 سے 15 ہزار تک تنخواہیں دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے پاس مزدوروں کاکوئی ریکارڈموجود نہیں ہے اورسول پروسیجر کورٹ اور کریمنل پروسیجر کورٹ کا صرف ایک، ایک قانون ہے جبکہ مزدوروں کیلئے وفاقی و صوبائی سطح پرتقریباً70 قوانین موجود ہیں اور ان قوانین میں آج تک ورکر کی تعریف کا فیصلہ کسی عدالت میں نہیں ہوا بلکہ ہر قانون میں ورکر کی الگ تعریف کی وجہ سے مزدور اپنے حقوق سے محروم ہیں۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی، بے روزگاری، بے انصافی، بد امنی، لوٹ مار، کرپشن اور اداروں میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے عوام اور مزدور طبقہ نئے پاکستان کے بجائے نئے قبرستان میں بھوک اور افلاس سے آئے روز موت کا شکار ہو رہا ہے ملک میں طاقتور کیلئے الگ اور کمزدور کیلئے الگ قانون ہے کراچی میں نسلہ ٹاور کے رہائشیوں کو عدالتی فیصلے کے ذریعے جس طرح بے دخل کرکے ان سے سرکا سایہ چھینا گیا ہے اس طرح کے عدالتی فیصلے طاقتوروں کے خلاف بھی آنے کی توقع ہے۔انہوں نے کہا کہ زلزلہ فالٹ لائن کی وجہ سے کوئٹہ شہر میں 32فٹ سے اوپر عمارتیں تعمیر نہیں کی جاسکتیں لیکن عدالت عالیہ بلوچستان کی اپنی عمارت سمیت عسکری مال اور بلوچستان مال کی عمارتوں کو دیکھا جاسکتا ہے کہ طاقتوروں کے بنائے گئے شاپنگ مالز پر عدالتی فیصلہ کیا جانا ناممکن ہے بلکہ ڈی ایچ اے کی انتظامیہ جہاں چاہے پرائیویٹ زمینوں پر جھنڈے گاڑ سکتی ہے عدالت عالیہ بلوچستان نے ڈی ایچ اے کے قانون کی بعض شقوں کو غیر قانونی قرار دے کر مستحسن فیصلہ کیا لیکن عدالت عظمیٰ میں فیصلے کی معطلی اور اس پر تاحال فیصلہ نہ ہونا بھی تشویش کا باعث ہے۔ مقررین نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے اپوزیشن دور میں عوام سے وعدے کیے تھے کہ وہ خود کشی کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے بہتر سمجھتے ہیں اورانہوں نے کہا تھا کہ جب ملک میں مہنگائی ہو اور ڈالر مہنگا ہو رہا ہو تو آپ سمجھ لیں کہ ملک کا وزیراعظم چور ہے بلکہ وزیر اعظم نے 126 دنوں کے تاریخی دھرنے میں خطاب کرتے ہوئے بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کا اعلان کرکے بجلی کے بل کو جلا دیا تھا لیکن آج ملک میں مہنگائی کا طوفان آچکا ہے، ملکی کرنسی زوال پذیر ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان آئی ایم ایف کے کنٹرول میں جاچکا ہے، اسٹیٹ بینک کا گورنر آئی ایم ایف کے نمائندے کی حیثیت سے ڈالر کی قیمت اوپر جانے کو اوورسیز پاکستانیوں کیلئے فائدہ مند قرار دے کر 22 کروڑ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کر رہا ہے، کرپشن کی یہ صورتحال ہے کہ کورونا وائرس کیلئے خریدے جانے والے سامان میں 40 ارب روپے کا غبن ہے جبکہ چینی مافیا، آٹا مافیا اور آئی پی پیز کے پرائیویٹ بجلی گھروں سمیت سرکاری اداروں میں بھی اربوں اور کھربوں روپے کی کرپشن زبانِ زد عام ہے اور آج تک سابقہ حکومتوں کے کسی کرپٹ اور لٹیرے حکمران یا وزیر کا احتساب نہیں ہوا ہے بلکہ موجودہ دورکی کسی بھی کرپٹ مافیا کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی ایماء پر واپڈا اور پاور کمپنیوں کی تقسیم درتقسیم سے بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور ان کمپنیوں کی نااہل و سیاسی انتظامیہ اور بورڈ سے ان اداروں میں بہتری کی امید ختم ہو چکی ہیں بلکہ غیر قانونی اور سیاسی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبران کیسکو میں اپنے دفتر قائم کرکے، سرکاری گاڑیوں کا غیر قانونی استعمال کرکے اورٹرانسفر پوسٹنگ و بھرتیوں میں مداخلت کرکے کیسکو کو نقصان پہنچا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ماہ کوئٹہ گرڈ، علیزئی گرڈ اور شیخ ماندہ گرڈ اسٹیشن کے 11KV پینل جل کر خاکستر ہوئے اور کیسکو کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچالیکن ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی بلکہ وہ کیسکو میں موجودہ بروکرز کے ذریعے مزید اچھے عہدے لینے میں کامیاب ہوئے اور ان کی جگہ جانے والے بھی مال کمانے کیلئے بے تاب انہی پوسٹوں پر پہنچ گئے۔انہوں نے کہا کہ اس سال کیسکو کے پانچ نوجوان لائن مین آفیسروں کی غفلت کی وجہ سے کام کے دوران قتل کر دیے گئے جس کی تاحال شفاف انکوائری نہیں ہوئی ہے اس سے پہلے بھی کئی کارکن شہید اور کئی معذور ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک ان کی کمپن سیشن کی ادائیگی نہیں ہو رہی ہے۔مقررین نے کہا کہ ڈپلومہ ہولڈرALM، LM-II، LM-I، ASSA اور SSA کی پروموشن کئی سالوں سے نہیں کی جارہی ہے اور اسی طرح کارکنوں کو ریگولر نہ کرنا، پنشن کی 10% رقم تنخواہوں میں فکس نہ کرنا، ہاؤس رینٹ میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنا، کارکنوں کی بروقت پروموشن و اپ گریڈ ایشن نہ کرنا، ادارے میں 40% خالی پوسٹوں پر بھرتیوں کا نہ ہونا، گاڑیوں کا آفیسروں کیلئے استعمال اور فیلڈ میں گاڑی کی خستہ حالی کی وجہ سے کیسکو کے واجب الادا قرضے 310 ارب روپے تک پہنچنے کے باوجود موجودہ سیاسی بورڈ اور اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے آفیسران کو کوئی فکر نہیں کہ ادارے کے نقصان کی وجہ سے بجلی مزید مہنگی ہوگی اور بجلی کی مہنگائی سے انڈسٹری، زراعت اور تجارت کیلئے بجلی کا استعمال ناممکن ہو جائے گا جس سے ملک میں بے روزگاری بڑھے گی اور بد امنی پیدا ہوگی۔ انہوں نے گوادر دھرنے کے جائز مسائل حل کرنے اور اسی طرح بلوچستان یونیورسٹی کے دو طالبعلموں کو فوری طور پر بازیاب کرنے پر زور دیا اور کہا کہ ملک کے اندرونی خلفشار کی وجہ سے ملک کمزدور ہو رہا ہے اور بیرونی سازشوں کی وجہ سے ملک کے معاملات میں روز بروز ابتری ہو رہی ہے۔ انہوں نے ملک کے تمام پالیسی ساز اداروں کے سربراہوں سے پر زور مطالبہ کیا کہ وہ اداروں میں لڑائی کے رجحان کو ختم کریں اور اسی طرح سیاستدان بھی الزامات اور جوابی الزامات کے ساتھ ملک میں کرپشن اور لوٹ مار کو ترک کر کے آئین اور قانون کے مطابق بہتر گورننس کے ذریعے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ انہوں نے نئی صوبائی حکومت سے پر زور مطالبہ کیا کہ ذاتی لڑائی جھگڑوں کے بجائے صوبے کے عوام کو امن، روزگار، پینے کے صاف پانی، صحت،تعلیم اور انصاف کیلئے کام کرے تاکہ صوبے میں امن اور روزگار کے ساتھ خوشحالی سے عوام مطمئن ہو کر جمہوریت پر اعتماد کرے۔انہوں نے واپڈا اور پاور کمپنیوں کی نجکاری کو فوری روکنے اور کمپنیوں کو واپڈا کے ماتحت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام مسائل کے حل پر زور دیا اور کہا کہ اگر مسائل حل نہیں ہوتے تو وہ 06 دسمبر بروز پیر پورے صوبے اورکیسکو ہیڈ آفس کوئٹہ میں مطالبات کے حق میں مظاہرے کریں گے۔