بلوچ لاپتہ افراد اور شہدا لواحقین کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو4540 دن ہو گئے۔
حب چوکی سے سیاسی سماجی کارکنان میر ہدایتاللہ بلوچ،محمد عظیم بلوچ، خیر محمد بلوچ، اور دیگر نے کیمپ میں آ کر اظہار یکجہتی کی،۔
وی۔بی۔اہم۔پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کی شروعات نوآبادیاتی نظام میں ہمیشہ ریاست کرتی ہے اور یہی مشق بلوچستان میں جاری ہے ظاہر ہے کہ ریاستی تشدد کے خلاف محکوم کے اندر نفرت پیدا ہوتی ہے اور بعض دفعہ یہ نفرت بھی اس کا سبب بنتا ہے جہاں تک بلوچ تنظیموں کا تعلق ہے وہ نسلی بنیادوں پر کسی کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ ان مخبروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو ریاستی اداروں کے لئے سادہ لباس میں مخبری کا کام کرتے ہیں یہاں تک جو بلوچ بھی مخبری کرتا ہے وہ بھی نشانہ بنایا جاتا ہے، ریاست کی پالیسی کے تحت ہزاروں بلوچوں کو اغوا کر کے شہید کیا گیا ہے اور ٹارچر سیلوں میں انہیں شدید اذیت دی جاتی ہے یہاں تک کہ زندہ جلایا جاتا ہے اس ظلم اور بربریت کے خلاف یہی حلقے خاموش ہیں، مکران میں عام بلوچ چرواہوں کا قتل، کاہان میں غریب کسانوں کو قتل کیا جاتا ہے، آئے روز بلوچ ڈاکٹرز، طلباء، سیاسی کارکنوں اور عام بلوچوں کو اغوا کر کے لاپتہ کر دیا جاتا ہے ان مظالم کے خلاف یہی حلقے اپنے لب سی کر بیھٹے ہوئے ہیں جب ایک مخبر یا ایجنٹ نشانہ بنتا ہے تو ریاست کے تمام حلقوں میں کھلبلی مچتی ہے اور ان کے گماشتوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب ظالم کے خلاف مظلوم متحد ہو جاتا ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ اپنی جدوجہد میں شدت لاتا ہے اس شدت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مظلوم کا خاتمہ ہو یا یہ بھی کہ صرف ظلم اگرچہ انسانی زندگی کو چھین لینے پہ خوش بخت انہیں جاہل قرار دیں، انہیں برا بھلا کہیے مگر مظلوم کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا وہ اپنی بقاء کی جنگ لڑتا ہے جب کہ ظالم اس لفظ بقاء سے واقف ہی نہیں ہوتا انہیں اپنی عیاشی اور اپنی خوشحالی چاہیے اس نسل کی خوشحالی مظلوم کی تباہی ہے دنیا میں قومی شعور کی جنگ بڑھتی گئی، ظالم اور مظلوم کی صفیں تقسیم در تقسیم ہوتی گئیں، ظالم بڑھ گئے، ہم مظلوم وہ ظالم، جب وہ ظالم یہاں سے چلے گئے ہم مظلوم چونکہ ادھر کے تھے وہ رہ گئے اور ہم مظلوموں میں کچھ وہ ظالم بن گئے جنہوں نے ہم مظلوموں کو ہر طرح سے تقسیم کرنے کی سازش کی ہم تقسیم ہوتے گئے۔