پاکستان میں جبری گمشدگیوں کی بابت قانون میں موثر اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے – وی بی ایم پی

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کی بابت قانون میں موثر اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے – وی بی ایم پی
وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مشرف دور سے ملکی سلامتی کے نام پر مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کی پاکستان میں جو جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ تاحال جاری ہے جس پر ملکی و بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت اقوام متحدہ نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا اور کرتے آرہے ہیں۔ حکومت پاکستان سے بارہا مطالبہ کیا گیا ہے کہ جبری گمشدی کو جرم قرار دیا جائے جو اس ماورائے آئین اقدام میں ملوث ہیں ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے جس پر الزام ہے تو گرفتاری کے بعد اسے چوبیس گھنٹے کے دوران کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے اور لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ انکی حکومتی سطح پر مالی معاونت کی جائے۔ نصراللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کا جو قانون پاکستان میں بنایا گیا ہے اس میں جبری گمشدگیوں کے روک تھام کے حوالے موثر اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے اور نہ ہی لاپتہ شخص کے اہلخانہ کو تحفظ فراہم کرنے اور نہ ہی انکی مالی معاونت کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ اس میں ایک شک ایسا شامل کیا گیا ہے جس سے جبری گمشدہ شخص کے اہلخانہ اپنا قانونی حق استمعال کرنے سے کترائے گا جو یقیناً ایک غیر آینی اقدام ہے جس پر انسانی حقوق کے تنظیموں سمیت اقوام متحدہ نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہیں اس لئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس بل پر انسانی حقوق کی ملکی و بین الاقوامی تنظیموں سمیت اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگی کے ساتھ اوپن بحث کے بعد اس بل کو آئین کا حصہ بنایا جائے بصورت دیگر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں طلباء و سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو عدالت میں لے جانے اور کوئٹہ سمیت کراچی اور اسلام آباد میں بھر پور احتجاج کرے گی۔ دریں اثناء کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4476 دن مکمل ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں خاران سے جمیعت طلبا اسلام کے صدر قاری شکر اللہ نے اپنے ساتھیوں سمیت کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔ وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے مخاطب ہوکر کہا کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ لوگوں کے حقوق غضب کئے جاتے ہیں انسانی خون پانی کی طرح بہنے لگتا ہے تب محکوم اور مظلوم بلوچ تنک آکر اپنے حقوق لینے کے لے جدوجہد شروع کردیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب کبھی کسی نے حق کی آواز اٹھائی تو حاکموں کے حکم پر بے ضمیر لوگوں نے حقوق مانگنے والوں کے خلاف فتوے دے کر پھانسی، عقوبت خانوں، ٹارچر سیلوں کی اذیت سے نوازا اور جب ان سے کام نہیں بنا تو فوج، پولیس، سی ٹی ڈی، ایف سی، آئین اور عدالتوں کا سہارا لے کر اپنے اقتدار کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کی گئی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post