نائیجیریا ( ویب ڈیسک ) یہ محض سفر نہیں تھا، یہ انسانی جسم کی آخری حد اور ارادے کی ناقابلِ تسخیر طاقت کا گیارہ روزہ ٹرائل تھا۔ ذرا تصور کیجیے: آپ ایک متحرک قبر پر بیٹھے ہیں، جہاں پناہ کے لیے کوئی دروازہ نہیں، پینے کے لیے پانی کی ایک بوند نہیں، اور سونے کے لیے جسم کا کوئی حصہ سیدھا نہیں ہوتا۔ ہر لہر ایک دیوہیکل ہاتھ بن کر آپ کو کھینچنے کی کوشش کرتی ہے، جبکہ رات کا درجہ حرارت آپ کے وجود کو منجمد کرنے پر تُلا ہے۔ نائیجیریا کے یہ تین مرد، غربت کی زنجیریں توڑنے کی ایک اندھی خواہش میں، ایک سمندری جہاز کے رَڈر پر گیارہ دن تک موت اور زندگی کے درمیان معلق رہے—کھلے بحرِ اوقیانوس پر ایک ایسا ناممکن "آرام گاہ" جہاں صرف ایک غلط سانس، ایک پلک جھپکنے کی غفلت، یا بھوک سے نڈھال ہو کر پڑا ہوا ایک بے جان ہاتھ انہیں ہزاروں فٹ گہری تاریکی میں غرق کر سکتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ، کیا وہ کوئی عام انسان تھے؟ ان کے پاس نہ خوراک تھی، نہ پانی، لیکن ایسی کیا خفیہ قوت تھی جو سمندر کی بے رحمی کو شکست دے کر انہیں لاس پالماس کے کنارے تک لے آئی؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ زندگی کی سب سے بڑی مشکلات میں، انسانی عزم ہی سب سے بڑی کشتی بنتا ہے۔
