پرامن بلوچ سیاسی قیادت کے خلاف قانون کو بطور ہتھیار استعمال کرنا افسوس ناک ہے۔ نادیہ بلوچ

 


شال ( نامہ نگار ) بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن نادیہ بلوچ نے کہاہے کہ ریاست پرامن بلوچ سیاسی قیادت کے خلاف قانون کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے اور ان کی بہن سمیت بی وائی سی کے دیگر رہنماؤں کی غیر قانونی حراست کو دس ماہ مکمل ہو چکے ہیں۔

انھوں نے کہاکہ بلوچستان سے اسلام آباد تک ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کے لیے پُرامن احتجاج، دھرنے اور سیاسی تحریکیں چلائی گئیں، جبکہ اب یہ معاملہ عدالتوں میں زیرِ سماعت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بی وائی سی قیادت کے خلاف لگائے گئے الزامات بے بنیاد، جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ہیں، اور ریاست مبینہ طور پر بی وائی سی کی عوامی مقبولیت اور سیاسی اثر و رسوخ سے خوفزدہ ہو کر انہیں قید میں رکھے ہوئے ہے۔

نادیہ بلوچ کے مطابق حالیہ دنوں میں مختلف عدالتوں سے بی وائی سی رہنماؤں کو متعدد مقدمات میں ضمانت ملی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں چھ ایف آئی آرز میں ضمانت منظور ہو چکی ہے، جن میں چار ضمانتیں سٹی سیشن کورٹ اور دو سریاب ڈویژن کی عدالت نے دی ہیں۔ اسی طرح مستونگ میں درج دو مقدمات میں جوڈیشل مجسٹریٹ کورٹ نے بھی ضمانت منظور کی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے قلات میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو گلزادی شاہجی اور بیبرگ بلوچ کے خلاف چار ایف آئی آرز درج کیں، تاہم اینٹی ٹیررازم کورٹ قلات نے ان مقدمات میں تمام درخواست گزاروں کو ضمانت پر رہا کر دیا۔ نادیہ بلوچ کے مطابق عدالتوں کے یہ فیصلے اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ مقدمات شواہد سے عاری اور بے بنیاد ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ صرف ایک ہفتے کے دوران ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کو مجموعی طور پر بارہ مختلف مقدمات میں ضمانت مل چکی ہے۔ ان کے مطابق یہ تمام ایف آئی آرز جنوری اور فروری 2025 کے دوران درج کی گئیں، جو ان کے بقول کسی اتفاق کے بجائے ایک منظم ریاستی حکمتِ عملی کی عکاسی کرتی ہیں۔

نادیہ بلوچ کا کہنا ہے کہ ایک ہی واقعے پر متعدد ایف آئی آرز درج کرنا غیر قانونی عمل ہے، جس کا مقصد سیاسی کارکنوں کو طویل اور نہ ختم ہونے والی قانونی جنگ میں الجھانا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جنوری 2025 میں دالبندین میں ہونے والے جلسے کے خلاف مختلف اضلاع میں ایف آئی آرز درج کی گئیں، حالانکہ یہ ایک ہی سیاسی سرگرمی تھی۔

ان کے مطابق یہ عمل پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 13 کی خلاف ورزی ہے، جو ایک ہی الزام پر بار بار مقدمہ چلانے، یعنی ڈبل جیوپرڈی، سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ نادیہ بلوچ کا کہنا ہے کہ ریاست محض اس بنیاد پر کسی شہری کو بار بار کٹہرے میں کھڑا نہیں کر سکتی کہ وہ عدالتی فیصلوں سے مطمئن نہیں۔

انہوں نے قلات میں درج ایک مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سی ٹی ڈی نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر رہنماؤں پر ایک خودکش حملے سے متعلق الزامات عائد کیے، جنہیں وہ مضحکہ خیز اور بدنیتی پر مبنی قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق اسی دوران بعض دیگر پرتشدد واقعات میں اصل ملزمان کے خلاف کارروائی کے بجائے بی وائی سی کے پرامن سیاسی رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا، تاہم ان مقدمات میں بھی سیشن کورٹ نے ضمانت منظور کی۔

نادیہ بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں سیاسی جدوجہد کو جرم بنا دیا گیا ہے اور پُرامن سیاسی قیادت کے خلاف کارروائی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول یہ اختلافِ رائے اور سیاسی اجتماع کو جرم بنانے کی پالیسی ہے، جس کے ذریعے قانونی ہراسانی کو اجتماعی سزا کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
بیان کے آخر میں نادیہ بلوچ نے کہا کہ یہ تمام ایف آئی آرز اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاست پُرامن مزاحمت سے خوفزدہ ہے۔ ان کے مطابق جب آوازوں کو طاقت کے ذریعے خاموش نہیں کیا جا سکا تو قانون کو ہتھیار بنا لیا گیا، تاہم تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کے لیے استعمال ہونے والے قوانین بالآخر خود ظالم کو بے نقاب کر دیتے ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post