ہم خود کو "اشرف المخلوقات" کہتے ہیں، لیکن یہ لفظ اب محض ایک خالی دعویٰ لگتا ہے۔ دل میں رحم نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی، احساسِ انسانیت دفن ہو چکا ہے۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ جانور بھی ہم سے بہتر ہیں؛ کم از کم وہ موقع پرست نہیں ہوتے، لوٹ مار نہیں کرتے، کسی کے درد کو اپنا کاروبار نہیں بناتے۔
یہ دنیا اب رہنے کے قابل نہیں رہی۔ ہر طرف ظلم، ہر طرف فرعون۔ ہر بستی کا اپنا فرعون، اپنا قارون۔ دل میں جو گھٹن پیدا ہوتی ہے، وہ روح کو زخمی کر دیتی ہے۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ کیا واقعی اس دنیا میں مزید جیویت رہنا چاہیے؟ جہاں انسان، انسان کا دشمن بن چکا ہو۔
چار دن پہلے سریاب روڈ، کوئٹہ پر جو کچھ ہوا، وہ صرف ایک حادثہ نہیں تھا؛ وہ ہماری بے حسی کا آئینہ تھا۔
تین نوجوان۔ ہیمل اور ان کے بھائی کزن۔ ہیمل محمد حسنی، اس کا بھائی اور کزن۔ نئے کپڑے، نئے جوتے، خوشی سے بھرپور دل لے کر دوست کی شادی میں گئے تھے۔ زندگی مسکرا رہی تھی۔ واپسی پر ایک الٹو گاڑی نے اوور ٹیک کرنے کی کوشش کی۔ ڈرائیور نے گاڑی بچانے کے چکر میں کنٹرول کھو دیا۔ شدید حادثہ۔ ہیمل موقع پر شہید۔ دو زخمی، درد سے کراہتے ہوئے۔
اور پھر جو ہوا، وہ سن کر روح کانپ جاتی ہے۔
لوگ جمع ہو گئے۔ لیکن مدد کے لیے نہیں۔ موقع کی تاک میں تھے۔ زخمی ابھی سانس لے رہے تھے، ہیمل کی لاش ابھی ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی تھی کہ "انسان" اُن کے جیبوں میں ہاتھ ڈالنے لگے۔
موبائل فونز چوری۔
پرس چوری۔
گھڑیاں اتار لیں۔
نئے جوتے تک اتار لیے۔
وہ فونز جن میں شادی کی آخری تصاویر تھیں، آخری ویڈیوز، آخری مسکراہٹیں۔ وہ سب چوری ہو گئیں۔ فیملی کی ماں کی آخری یادیں، بہن بھائیوں کی آخری نشانیاں۔ تم نے صرف چیزیں نہیں چوری کیں، تم نے ایک پورے خاندان کا سکون، ان کی یادوں کا آخری سہارا چھین لیا۔
انسان کی جان کی قیمت پوری دنیا کی دولت سے بھی زیادہ ہے، مگر تمہارے نزدیک وہ جوتوں، فونز اور چند ہزار روپوں سے بھی کم تھی۔
اے بے حسو!
کیا تمہارے اندر ذرا بھی انسانیت باقی نہیں بچی؟
کیا تمہارا ضمیر مر چکا ہے؟
یا تمہارے اندر ضمیر نام کی کوئی چیز کبھی تھی ہی نہیں؟
ہم سب پر یہ وقت آ سکتا ہے۔ کل کو ہمارا بھائی، ہمارا بیٹا، ہماری بہن اسی حالت میں پڑی ہو۔ کیا ہم بھی یہی چاہیں گے کہ لوگ مدد کرنے کی بجائے ہمارے جیبوں میں ہاتھ ڈالیں؟
جب تک ہم اپنی بے حسی پر شرمندہ نہیں ہوں گے،
جب تک ہم دوسروں کے درد کو اپنا درد نہیں سمجھیں گے،
جب تک ہم اپنے اندر کے مرے ہوئے ضمیر کو زندہ نہیں کریں گے،
تب تک ہم "اشرف المخلوقات" کہلانے کے مستحق نہیں۔
ہیمل محمد حسنی اور اس جیسے ہزاروں نوجوانوں کے خون کا بدلہ صرف یہ نہیں کہ ہم دعائیں کریں۔ بدلہ یہ ہے کہ ہم انسان بن جائیں۔ اپنے اندر انسانیت کو زندہ کریں۔
ورنہ یاد رکھو،
ایک دن ہم سب کو اسی اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے،
اور وہاں نہ فون بچیں گے، نہ پیسے، نہ بہانے۔
صرف عمل اور ضمیر بولیں گے۔
اے اللہ! ہمیں انسانیت عطا فرما،
اور ہمیں بے حسی سے بچا۔
ہیمل اور اس جیسے تمام شہیدوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما۔
آمین۔
