بلوچ قوم پرست، سیاسی و جنگی رہنما ملک منظور احمد مری کی وفات کی خبر نے دل کو گہرے دکھ اور صدمے سے دوچار کر دیا۔کامریڈ وسیم،قادر ایڈوکیٹ

 


شالکوٹ ( نامہ نگار ) بلوچ قوم پرست، سیاسی و جنگی رہنما ملک منظور احمد مری کی وفات کی خبر نے دل کو گہرے دکھ اور صدمے سے دوچار کر دیا۔ دل درد سے لبریز ہے ان خیالات کا اظہار بلوچ سیاسی سماجی سرگرم کارکن کامریڈ وسیم سفر نے جاری بیان میں کیا یے ۔
انھوں نے کہاہے کہ  ایسے عظیم ہستیاں صدیوں بعد جنم لیتی ہیں۔ علم، شعور اور حوصلے کے بلند مینار آہستہ آہستہ ہم سے جدا ہو رہے ہیں، جو ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
ملک منظور احمد مری علم و فہم، فراست و بصیرت کے پیکر تھے۔ ان سے سیکھا جاتا تھا کہ بہادری کیا ہے، قربانی کیا ہے، اور قوم دوستی کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ وہ نواب میر حیر بخش مری کے نہ صرف قریبی رفیق بلکہ فکری و انقلابی ہمسفر تھے۔ اُن کے ساتھ انہوں نے بلوچ قومی جدوجہد کے گوریلا محاذ پر ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔
کامریڈ نے کہاہے کہ نواب حیر بخش مری کی افغانستان جلاوطنی کے دوران، ملک منظور احمد مری بھی اُن کے ساتھ رہے۔ بعد ازاں جب وہ وطن لوٹے تو ریاستی اداروں نے انہیں گرفتار کر کے جیلوں میں قید رکھا، مگر اُن کے عزم و نظریے کو جھکایا نہ جا سکا۔
ملک منظور احمد مری کا خاندان بھی قومی مزاحمت کا حصہ رہا ہے۔ اُن کے قبیلے کے متعدد افراد نے قومی جدوجہد میں عملی کردار ادا کیا۔ ریاستی جبر کا یہ خاندان ہمیشہ سامنا کرتا رہا۔ اُن کے بھتیجے ڈاکٹر محمد اکبر خان مری کو 2010 میں کوئٹہ سے ریاستی اداروں نے اغوا کیا، جو تاحال لاپتہ ہیں۔
ملک منظور احمد مری جیسے بہادر سپوت بلوچ قومی تحریک کے وہ ستون تھے جن پر نسلیں فخر کرتی رہیں گی۔ ان کی جدوجہد، قربانیاں اور فکر بلوچ قوم کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہیں گی۔

دوسری جانب بلوچ نیشنل موومنٹ کے سابقہ سنٹرل کمیٹی کے ممبر قادر ایڈوکیٹ نے بھی ملک منظور بلوچ کی ناگہانی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کے اہلخانہ سے تعزیت کی ہے اور کہاہے کہ آج نہ صرف ا ن کا خاندان بلکہ  بلوچ قوم  ایک عظیم بزرگ رہنماء کی جدائی سے غم زدہ اور اشک بار ہے کیوں کہ ایسے ہستیاں بار بار جنم نہیں لیتے ہیں آج بلوچ قوم ایک ایسے رہنماو سے محروم ہوا ہے جن کا خلا صدیوں میں پر نہیں ہوسکے گا  ۔ 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post