شال ( نامہ نگار )
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کے وکیل کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے دیگر ساتھیوں کا جیل ٹرائل کیا جا رہا ہے۔ جیل ٹرائل پاکستانی قانون کا حصہ نہیں ہے کیونکہ قانون کا بنیادی اصول یہ ہے کہ تمام ٹرائل اوپن کورٹ میں ہوتے ہیں، جہاں عوام اور میڈیا کو رسائی حاصل ہوتی ہے۔ عدالتوں کی شفافیت ہی ان کے فیصلوں کی ساکھ کی ضمانت ہوتی ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ ریاست جب کسی شہری پر جرم کا الزام لگاتی ہے تو اسے بلا شبہ ثبوتوں کی بنیاد پر ثابت کرنا ہوتا ہے۔ یہ عمل جیل کی چار دیواری میں خفیہ کارروائی کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں پر سیاسی بنیادوں پر کیسز بنائے گئے ہوں اور انہیں صرف اپنی آواز بلند کرنے پر نشانہ بنایا گیا ہو، تو ان کا جیل ٹرائل کرنا غیر قانونی اور ناقابل قبول ہے۔
آئین و قانون میں کوئی ایسی شق موجود نہیں جو جیل ٹرائل کی اجازت دیتی ہو۔ ان بے گناہ افراد کو پچھلے تین مہینوں کے دوران کئی مرتبہ عدالتوں میں پیش کیا گیا ہے اور اس دوران کبھی عدالت کے وقار یا کارروائی میں رکاوٹ نہیں آئی۔ مگر اب میڈیا اور وکلاء تک رسائی نہ دینا آئین کے آرٹیکل 10-اے کی خلاف ورزی ہے، جو منصفانہ ٹرائل کی ضمانت دیتا ہے۔ ملزمان اور وکیل کے درمیان خصوصی رابطے کا حق بنیادی قانون کا تقاضا ہے، جس کے بغیر کوئی منصفانہ دفاع ممکن نہیں۔