اسلام آباد ایمان مزاری اور ان کے شوہر پر ریاست مخالف سرگرمیوں کا الزام، ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

 


اسلام آباد ( ویب ڈیسک ) اسلام آباد کی عدالت نے ایمان مزاری اور ان کے شوہر ہادی علی چٹھہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے ریاست اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف متنازع ٹویٹ کیس میں ایڈووکیٹ ایمان مزاری اور ان کے شوہر ایڈووکیٹ ہادی علی چٹھہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکہ نے دونوں ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ انہیں گرفتار کرکے 24 ستمبر کو عدالت میں پیش کیا جائے۔
وارنٹ جاری ہونے کے بعد ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کے وکلا کی جانب سے وارنٹ منسوخی کی درخواست دائر کی گئی، تاہم عدالت نے فی الفور یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 24 ستمبر تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کے خلاف این سی سی آئی اے نے مقدمہ درج کر رکھا ہے، ایف آئی آر کے مطابق دونوں پر الزام ہے کہ وہ سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے لسانی بنیادوں پر تقسیم کو ہوا دینے کی کوشش کررہے تھے۔
ایف آئی آر میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ ایمان مزاری اور ان کے شوہر نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملات کی ذمہ داری سیکیورٹی فورسز پر عائد کی، یہ مقدمہ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) کی دفعات 9، 10، 11 اور 26 کے تحت درج کیا گیا۔
واضح رہے کہ رواں ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ سیاسی رہنما اور بی وائی سی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سرفراز ڈوگر اور ایڈووکیٹ ایمان مزاری کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔
چیف جسٹس نے ایمان مزاری کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی تھی، جس کے بعد ایمان مزاری نے چیف جسٹس کے خلاف ہائی کورٹ کی ورک پلیس ہراسمنٹ کمیٹی اور سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں شکایات جمع کرائی تھیں۔
شکایات جمع کرانے کے بعد سے ہی ایمان مزاری اور ان کے شوہر کے خلاف مختلف مقدمات کے تحت کارروائی کا آغاز ہوا۔
ان پر الزام ہے کہ وہ ریاست مخالف سرگرمیوں اور ریاستی اداروں کے خلاف مہم میں ملوث رہی ہیں اور ان کے مبینہ تعلقات کالعدم تنظیموں، جن میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما منظور پشتین شامل ہیں سے ہیں۔
ایمان مزاری کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات شفافیت کی کمی اور عدالتی نظام میں رائج اس ثقافت کو ظاہر کرتے ہیں جہاں خواتین کی ہراسمنٹ شکایات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
انکا مزید کہنا تھا ہم پر الزام لگایا گیا ہے کہ ہم بی ایل اے کی حمایت کرتے ہیں لیکن جو ٹوئٹ ساتھ لگائی گئی ہے اس میں لکھا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا احتساب ہونا چاہیے، ڈاکٹر ماہ رنگ کو رہا ہونا چاہیے۔
انہوں نے ایس جے سی سے مطالبہ کیا ہے کہ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے خلاف کارروائی کی جائے کیونکہ یہ رویہ بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی مثال ہے، جو ان کے قانونی پیشے اور مؤکلین کے حقِ انصاف میں رکاوٹ بنتا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post