کوئٹہ ( ڈیجیٹل میڈیا )بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا ہے کہ بی این پی کے جلسے کو نشانہ بنانا اخترمینگل کو قتل کرنے کی دوسری بڑی کوشش ہے، اس سے پہلے ان کے لانگ مارچ کو خود کش حملے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا، پاکستان بارہا ثابت کر رہا ہے کہ اب بلوچستان میں نہ صرف سیاست بلکہ سانس لینے کی ایک ہی صورت رہ گئی ہے کہ بلوچ نسل کشی، اجتماعی سزا، بلوچ وسائل کے استحصال اور بلوچ قومی شاخت و بقا کو مٹانے کے لیے ریاست پاکستان اور ریاستی أفواج کے طے حکمت عملی پر دست بستہ اور بغیر کسی چون و چرا کے عمل کریں، کسی نے بھی ذرا سی بھی نقطہ پر اختلاف کی جرات کی تو ریاست اسے نشانہ عبرت بنانے سے دریغ نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا بی این پی کے جلسے کو نشانہ بنانا بنیادی طور پر ان بلوچ سیاسی حلقوں کے لیے عندیہ ہے جو اب تک پاکستانی فریم ورک میں سیاست کے حامی ہیں۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ بی این پی کے جلسہ عام اور اس کے سربراہ سردار اخترمینگل کو ریاست نے نشانہ بنایا ہے۔ اب ریاست پر منحصر ہے کہ وہ اقدام کو ممکنہ طور پر داعش یا کسی دیگر ریاستی اثاثے کے نام سے قبول کرتا ہے یا اسے پردہ اخفا میں رکھتا ہے، لیکن ریاستی خاموشی سے ریاستی جرائم نہیں چھپائے جاسکتے۔
ڈاکتر نسیم بلوچ نے کہا ہمیں بی این پی کے طرز سیاست سے بنیادی اختلاف ہے لیکن جلسہ عام پر حملہ بلوچ نسل کشی کے تسلسل کا حصہ اور قابل مذمت ہے۔ پارلیمانی حلقوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان نے بلوچ کے لیے سیاست کو شجر ممنوعہ اور اس حد تک مشکل بنادیا ہے کہ اب یہاں صرف وہی سانس لے سکتا ہے جو نہ صرف پاکستانی فوج کے تابع فرمان ہو اور شرمناک اور ذلت آمیز عسکری شرمناک شرائط پر سر تسلیم خم کرکے حکم بجا لائے۔
انہوں نے کہا کہ اب تو نوبت یہاں پہنچ گیا ہے کہ پاکستان اپنی ہی پارلیمان میں اپنے حلف یافتہ ممبراں کی ایک ؐمحدود سی آواز بھی برداشت کرنے کی روادار نہیں اور ہماری اپنی سرزمین پر سیاست، مزاحمت اور جمہوری اظہار کو دہشت گردی کے ہتھیاروں سے کچل رہا ہے۔ یہ حملہ ریاستی جنگی جرائم کو مزید بے نقاب کرتا ہے اور عالمی برادری کے لیے ایک کھلا سوال چھوڑ جاتا ہے کہ آخر بلوچ کے بہتے لہو پر یہ خاموشی کب تک؟
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا پاکستانی عسکری طرز عمل سے دنیا کو اندازہ ہونا چاہئے اگر ایک سردار اختر مینگل جیسا پارلیمانی سیاستدان محفوظ نہیں، تو وہ بلوچ نوجوان، عورتیں اور بچے جنہوں نے آزادی کا خواب دیکھا ہے، ان کے لیے پاکستان کس حد تک ظالمانہ اور خونی ہے اور مقبوضہ بلوچستان کے محکوم اور مظلوم بلوچ پاکستانی ریاست فریم سے باہر قومی آزادی کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، کام کرتے ہیں، ان کے ساتھ اس دہشت گرد ریاست کا وحشت ناک سلوک کس درجہ سنگین اور کربناک ہوتا ہے۔